اسلام آباد (جاوید صدیق) اسامہ بن لادن پر ایبٹ آباد میں مئی 2011ءمیں حملے کے بعد اب بلوچستان میں پاکستان کی سرحد کے اندر امریکی ڈرون حملہ میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور پر ڈرون حملہ پاکستان کی سالمیت کی دوسری خلاف ورزی ہے۔ مئی 2011ءمیں ایبٹ آباد میں ایک نجی گھر پر رات گئے امریکی کمانڈوز نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس حملے کے بعد اسامہ بن لادن کی نعش کو سمندر میں پھینک دینے کا دعویٰ کیا گیا۔ ایبٹ آباد حملے پر پاکستان میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس حملے کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنایا گیا تھا جس کی رپورٹ ابھی تک پوری طور منظر عام پر نہیں آ سکی۔ ایبٹ آباد حملہ کے بعد اب افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو پاکستان کی سرحد کے اندر ڈرون حملہ کر کے مارا گیا جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے احتجاج کیا ہے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر حملہ کے بعد بھی امریکی میڈیا یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس حملہ کا پاکستان کے سیاسی اور عسکری لیڈروں کو علم تھا۔ حال ہی میں امریکی صحافی سی مور ہرش نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر حملہ میں پاکستانی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ ملا اختر منصور جو مبینہ طورپر ولی محمد کے نام سے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا کو امریکہ نے ڈرون حملہ میں مارنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر ملا اختر منصور پاکستان کے اندر ہلاک ہوا ہے تو پاکستان کیلئے یہ ایک اور پریشانی ہے۔ ایک تو یہ پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور دوسرا افغان طالبان کا بھی اس واقعہ پر سخت ردعمل ہو سکتا ہے۔ افغان مسئلہ کے سیاسی حل کیلئے شروع کئے گئے چار فریقی مذاکرات پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ ملا اختر منصور کے پاکستان کی سرحد پر ڈرون حملے مارے جانے سے غیر ملکی میڈیا اور افغان کومت کو اس پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائیگا کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی امریکہ یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ طالبان کے سابق لیڈر ملا عمر بھی بلوچستان میں موجود ہیں پاکستان نے ہمیشہ ملا عمر کی پاکستان میں موجودگی کی تردید کی۔
مئی امریکہ حملہ