اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) ترجمان دفتر خارجہ نے افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور کی پاکستان کے اندر ہلاکت کی بالواسطہ تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان سرحد کے قریب تباہ شدہ گاڑی سے ملنے والی ایک نعش تو گاڑی کے پاکستانی ڈرائیور محمد اعظم کی ہے جبکہ دوسرے شخص کی ابتدائی شناخت ولی محمد ولد شاہ محمد کے طور پر ہوئی ہے جس سے ملنے والے پاکستانی شناختی کارڈ کے مطابق وہ بلوچستان کے علاقہ قلعہ عبداللہ کا رہنے والا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی حکام کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر امریکی، یورپی اور افغان میڈیا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ مذکورہ گاڑی امریکی ڈرون حملہ میں تباہ ہوئی اور مارے جانے والا مسافر افغان طالبان کا امیر ملا اختر منصور ہے۔ بیان کے مطابق ابھی تک میسر ہونے والی معلومات کے مطابق ولی محمد جس کے والد کا نام شاہ محمد ہے کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ تھا وہ تفتان بارڈر کے ذریعے 21 مئی کو پاکستانی حدود کے اندر داخل ہوا، اس کے پاسپورٹ پر ایک درست ایرانی ویزا لگا ہواتھا وہ تفتان سے ٹرانسپورٹ کمپنی کی حاصل کردہ گاڑی پر سفر کر رہا تھا اس کی یہ گاڑی پاکستان افغانستان سرحد کے نزدیک کوچکی نامی علاقہ میں تباہ پائی گئی اس گاڑی کے ڈرائیور کا نام محمد اعظم تھا جس کی نعش کی شناخت کی جا چکی ہے اس کے رشتہ دار نعش لے جا چکے ہیں۔ ولی محمد کی نعش کے بارے میں دستیاب شواہد اور موقع سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر نعش کی شناخت کا عمل جاری ہے ۔ اس معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہے۔دفتر خارجہ نے امریکی دعوﺅں کی دوٹوک تردید کے بجائے دستیاب معلومات عام کر کے اس دعویٰ کی بالواسطہ تردید کی ہے کہ پاکستان کی حدود کے اندر ہلاک ہونے والا شخص افغان طالبان کا امیر ملا اختر منصور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ملا اختر منصور، ولی محمد کے جعلی نام سے کیوں ایران گیا جو طالبان کیلئے دشمن ملک کا درجہ رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے طالبان رہنما، کیوں اکیلے سفر کر رہا تھا؟ اگر یہ تصدیق ہو گئی کہ مرنے والا مسافر واقعی قلعہ عبداللہ کا رہنے والا پاکستانی شہری ولی محمد ہی تھا تو پھر امریکیوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ انہوں نے ملا اختر منصور کو کہاں اور کب مارا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بلوچستان کے علاقے مل میں جلی ہوئی گاڑی سے ملنے والی نعشوں کا پوسٹ مارٹم مکمل ہو گیا ہے۔ دونوں کی موت دھماکہ خیز مواد سے ہوئی۔ تفتیشی افسروں کی توجہ دوسری نعش پر مرکوز ہے۔ اے ایف پی کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ اس بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ملا اختر منصور حال ہی میں ایران سے واپس آئے تھے اور انہیں احمد وال میں ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ سکیورٹی اہلکار کے مطابق مارے جانے والا گاڑی کے ڈرائیور کا نام محمد اعظم ہے۔ وہ کوئٹہ میں رینٹل کار کمپنی چلا رہا تھا۔ سرحدی قصبے تافتان کے ایک امیگریشن اہلکار نے اس کے سفر کے حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوا تو اس کے پاس یورو کرنسی موجود تھی۔ موقع سے ملنے والے شناختی کارڈ اور تصویر کے مطابق اس ولی محمد کے شناختی کارڈ پر دوسرا پتہ کراچی کا ہے۔ دونوں دستاویزات پر لگی تصاویر ملا اختر منصور کی تصویر سے ملتی جلتی ہیں۔ یہ پتہ نہیں کہ یہ دستاویزات جعلی ہیں یا اصلی۔ افغان میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔”خاما پریس “ کے مطابق ملا اختر منصور کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر انکے پاکستانی پاسپورٹ کی تصویر سامنے آئی ہے۔
دفتر خارجہ/ گاڑی/ نعش