میاں نواز شریف ہزار دام سے ایک جنبش میں نکلنے کے ماہر ہیں۔ خوش قسمتی نے زندگی کے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا ہے۔ جنرل جیلانی اور بریگیڈیئر قیوم کو سر چھپانے کیلئے ایک ”جھونپڑے“ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آجکل کے ڈھاروں میں بھی سریا استعمال ہوتا ہے۔ میاں صاحب سیاست میں کیا آئے دیکھتے ہی دیکھتے چار سو چھا گئے۔ جولئس سیزر کی طرح ! میں آیا میں نے دیکھا اور میں چھا گیا۔ وزیر خزانہ بنے ! جب وزارت علیہ کیلئے میدان سجا تو جنرل جیلانی نے ممبران اسمبلی کی رائے لینے کا ڈرامہ رچایا۔ گورنر صاحب کا تکیہ کلام تھا۔ مزاج شریف، جو ممبران سے ملاقات کر کے باہر نکلتا تو اپنے ساتھیوں کو بتاتا۔ ارے بھائی فیصلہ تو گورنر نے پہلے سے کر رکھا ہے جبھی تو ملاقات پر نواز شریف، نواز شریف کے الفاظ دہراتا ہے۔ ہارے کیمل پوریے کچھ زیادہ ہی چالاک نکلے۔ جیلانی کے استفسار پر ملک حلیم اقبال بولا ”وزیراعلیٰ نوجوان ہو، خوبصورت ہو، دولت مند ہو۔ اور بلی آنکھوں والا ہو جنرل صاحب نے فقرہ مکمل کر دیا۔ یوں میاں صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ مقرر ہوئے وزارت علیہ کے ناکام امیدواروں چوہدری پرویز الٰہی، ملک اللہ یار کھنڈا، مخدوم الطاف‘ رفیق حیدر لغاری وغیرہ نے بغاوت کی نیم دلانہ کوشش کی لیکن لاہور ایئر پورٹ پر (انکے برادر نسبتی ڈاکٹر بشارت اور خانہ واحد والے دوست اسلم خان کے اصرار پر) جنرل ضیاءکے چند جملوں نے بغاوت کے بخیے ادھیڑ دیئے۔ نواز شریف کا کِلّہ مضبوط ہے۔ اللہ کرے اس کو میری عمر لگ جائے “جنرل صاحب چونکہ نیک انسان تھے اور ہو سکتا ہے وہ قبولیت کی گھڑی ہو چنانچہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔ ایک ہوائی حادثے میں ضیاءصاحب اپنی عمر نواز شریف کے کھاتے میں ڈال کر ”پرلوک“ سدھار گئے۔ اس اچانک حادثے کے بعد کچھ یوں گمان ہوا کہ نواز شریف بھری دنیا میں تنہا ہو گئے ہیں۔ کسی دوست نے جنرل جیلانی سے پوچھا۔ اب نواز شریف کا کیا بنے گا؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ”بشیرا ان ٹربل“ چونکہ ہمہ مقتدر طاقتیں نہیں چاہتی تھیں کہ طاقت کا ارتکاز ہو اس لئے بے نظیر کے مقابلے میں میاں صاحب کو ہلا شیری دینا لازم ہو گیا۔ چھانگا مانگا آپریشن بھی اسی تناظر میں کیا گیا۔ کچھ ناقدین اس حکمت عملی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آخر اس میں حرج ہی کیا تھا؟ کیا میاں صاحب پنجاب کے ممبران اسمبلی کو چاندی کی طشتری میں رکھ کر محترمہ کو پیش کر دیتے ؟ تحریک عدم اعتماد کے وقت بے نظیر نے مطلوبہ ممبران قومی اسمبلی کو سوات کے ایک ہوٹل میں بند کر کے اسمبلی جانے سے روک دیا۔ اس کا ذکر تو کوئی نہیں کرتا۔ جب غلام اسحق نے 58.2.B کا سہارا لیکر انکی حکومت ختم کی تو سپریم کورٹ نے بحال کر دی۔ پرویز مشرف کے ساتھ سینگ پھنسانے کے جرم میں انہیں عمر قید ہوئی تو سعودی حکومت انکی ممد اور معاون ثابت ہوئی۔ ایک وزیراعظم دار و رسن کی آزمائش سے گزرا تو دوسرا سپیشل ہوائی جہاز پر ہلارے لیتا ہوا دیار حبیب پہنچ گیا۔ توہین عدالت کے جرم میں گیلانی صاحب سزا یافتہ ہو کر گھر چلے گئے میاں صاحب نے عدالت کو ہی رخصت کر دیا۔ بعد میں سزا بھی ہوئی تو مہروں کو، شہ کو مات کوئی نہ دے سکا۔ طارق عزیز اور میاں منیر توہین عدالت کے جرم میں جب سزا کاٹ کر آئے تو ان پر عجب انکشاف ہوا۔ انہیں میاں صاحب نے یک بینی و دوگوش پارٹی سے نکال باہر کیا۔ ان سے پہلے قبلہ چیف جسٹس صاحب بھی فارغ کر دیئے گئے۔ اس رخصتی کے کسی حد تک سجاد علی شاہ خود بھی ذمہ دار تھے۔ جب ایک منتخب وزیراعظم نے عدالت میں آ کر معافی مانگ لی تھی تو پھر معاملہ کو طول دینے کا کیا جواز تھا؟
اصغر خان کیس کا آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ کیس بڑا دلچسپ ہے۔ ISI کا سابق سربراہ کہتا ہے کہ میں نے الیکشن کیلئے میاں صاحب کو 25 لاکھ روپے دیئے اسکی تصدیق آرمی چیف کرتا ہے جب اس قد آور شخصیت Self Incriminating شہادت دے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ لوگ اس قسم کے بیانات نہیں دیتے جس میں انکے اپنے بچنے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ یہ تو عدالت میں ثابت ہوگا کہ رقم لی گئی یا نہیں البتہ ایک بات قابل غور ہے۔ آخر میاں صاحب کو اس قدر قلیل رقم لینے کی ضرورت کیا تھی؟ کراچی سے لیکر لاہور تک، فیصل آباد سے ملتان تک چندہ دینے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اگلا وزیراظم میاں نواز شریف ہوگا۔ ایسا طاقتور ادارہ اگر 25 کلو ریت بھی دے تو لینی پڑتی ہے۔ اس کو ناراض نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کو کسی خاص مقصد کیلئے رقم دیتا ہے تو وہ Commit ہو جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔
اسحاق ڈار کے اعتراضات کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ حیرت بیان حلفی پر نہیں ہوتی حیرانی اس بات پر ہے کہ میاں صاحب نے انہیں معاف کیسے کر دیا! مخالفین اس بات پر بضد ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے یا جو کچھ ان سے کہلوایا گیا ہے:
IT was the tip of the iceberg
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پانامہ کیس میں بھی میاں صاحب کے بچے نکلنے کے امکانات ہیں۔ ویسے ہمارا معاشرتی رویہ بھی کچھ عجیب قسم کا ہے۔ ایک Paradox ہر فرد کے اندر موجود ہے۔ ایک شخص بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتا ہے۔ شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔ شراب و شباب کا رسیا ہے۔ فضل ربی کو فرض سمجھ کر لیتا ہے۔ تو لوگ اسے ENVEY کرتے ہیں۔ رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وہی آدمی بدقسمتی سے اگر پکڑا جائے تو لعن طعن شروع ہو جاتی ہے۔ طنز و تشنیع کے نشتر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سماج میں برہمن سے اچھوت بن ہے۔ کسے نہیں پتہ کہ زرداری کے یورپ میں محلات ہیں۔ عدالت عظمےٰ پوری کوشش کے باوجود سوئیس بنک میں پڑی ساٹھ ملین ڈالر ( 7 ارب روپے) کی رقم واپس نہیں لا سکی۔ میاں صاحب کے فلیٹ لندن میں ہیں۔ اسکے علاوہ لاکھوں پاکستانیوں کی بیرون ملک جائز اور ناجائز جائیدادیں ہیں۔ اسکی بڑی وجہ عدم تحفظ ہے۔ دو خاندان باری باری حکومت کر رہے ہیں۔ انکی مرضی کے بغیر یہاں کوئی شخص بڑا کاروبار نہیں کر سکتا۔ محنت کی کمائی سے بنائے گئے سکائی سکریپر چشم زدن میں محض مخالفت کی بنا پر زمین بوس کر دیئے جاتے ہیں۔ عدالتوں سے لئے گئے حکم امتناعی بلڈوزروں کے آگے ڈال دیئے جاتے ہیں۔ پٹرول پمپوں کو جڑ سے اکھاڑ کر کیکر کے درخت کی طرح باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ وہ مہان لوگ ہیں جنہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ شام کے وقت کرشن نگر کے کریانہ فروش یا بوہری بازار کے میمن کے غلے میں کتنی رقم پڑی ہوئی ہے۔ وطن عزیز میں کروڑوں لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ جو دیتے ہیں وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتا ہے۔ انکے متعلق تو کچھ واویلا نہیں ہوتا سارا ہنگامہ چند مکانوں تک محدود ہو گیا ہے۔
اب ہو گا کیا؟ عدالت کے ایک فاضل جج صاحب نے کہا تھا اس مقدمے کو بیس برس تک یاد رکھا جائے گا۔ لگتا ہے انہوں نے کسر نفسی سے کام لیا ہے۔ بیس سال تو اس کو سمجھنے کےلئے چاہئیں۔ یہ ایسا فیصلہ ہے جس سے دونوں فریق بیک وقت خوش بھی ہیں اور ناراضی کا اظہاربھی کر رہے ہیں۔ دو ججوں نے میاں صاحب کو قصور وار ٹھہرایا ہے۔ بقیہ تین نے انہیں بے گناہی کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا۔ قطری خط کو سب نے بیک جنبش قلم مسترد کر دیا ہے اگر ”منی ٹریل“ ہی نہیں مانی گئی تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ وہ شاخ نہ رہی جس پر آشیانہ تھا۔ با ایں ہمہ معاملہ JIT کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اس میں کون لوگ ہیں۔ عسکری اداروں کی نمائندگی اپنی جگہ لیکن فیصلہ تو اکثریت سے ہونا ہے۔ اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو بقول ہمارے دوست ملک صاحب میاں صاحب کے منشی، منیجر، مالشیے کی کیٹیگری میں آتے ہیں یہ کیا تفتیش کریں گے؟ یورپ جا کر وزیراعظم کی جائیداد کا کھوج لگائیں گے۔ لندن رجسٹری سے جائیداد کی مصدقہ کاپیاں لیں گے؟ جب میاں صاحب پیش ہونگے تو کہیں سے آواز آئے گی۔ حضور! آپ نے کیوں قدم رنجہ فرمایا ہے۔ ہم ہی حاضر ہو جاتے۔
عمران خان و دیگران نے مطالبہ کیا ہے کہ میاں صاحب کے ہوتے ہوئے آزادانہ تحقیق نہیں ہو سکتی اس لئے وہ ساٹھ دن کیلئے مستعفی ہو جائیں۔ اس سے کیا فرق پڑیگا؟ اس عرصے میں جو بھی وزیراعظم ہوگا وہ ان کا (Hand Picked) ہوگا۔ کیا وہ تفتیش پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا؟ پھر چھوٹے میاں صاحب پنجاب کے طبل و علم کے مالک و مختار ہیں۔ ن لیگ کی مٹھائی بانٹنے کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ انہیں سرنگ کے آخری سرے پر روشنی نظر آ رہی ہے۔
البتہ ایک امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا! دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی فرینڈلی فائر کر رہی ہے وہ بھی اپنی سوچ بدل رہے ہیں۔ بات اتہام سے دشنام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ غالباً سیاسی سفر میں (Point Of No Return) آ گیا ہے۔ پاکستان کے وکلا نے بھی میاں صاحب سے استعفےٰ کا مطالبہ کر دیا ہے ....ع
دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکام نہنگ
دیکھیں اس مرتبہ میاں صاحب مشکلات کا دریا کیسے عبور کرتے ہیں؟