ٹرمپ اور سعودی فرمانروا کا ایران پر دہشتگردی کے فروغ کا ملبہ اور عرب‘ امریکہ سربراہی کانفرنس میں پاکستان سے مکمل بے اعتنائی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران دہشت گردی کا مرکز ہے‘ لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک ایران نہ صرف دہشت گردی کیلئے فنڈز فراہم کررہا ہے بلکہ وہ دہشت گردوں کی تربیت کرنے سمیت انہیں اسلحہ بھی فراہم کررہا ہے۔ گزشتہ روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ امریکہ‘ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ایران خطے میں افراتفری پھیلانے اور عدم استحکام لانے کیلئے انتہاءپسند گروپ بنا رہا ہے۔ انہوں نے تمام مسلم ممالک سے اپیل کی کہ جب تک ایرانی حکومت امن کیلئے ساتھ دینے پر رضامند نہیں ہوتی‘ اسے عالمی طور پر تنہاءکردیں۔ انکے بقول ایران اسرائیل کو تباہ کرنے اور امریکہ مردہ باد کی بات کرتا ہے۔ امریکہ نائن الیون اور بوسٹن حملوں جیسے واقعات کا نشانہ بنتا رہا اور یورپی اقوام نے بھی ناقابل یقین خوف برداشت کیا جبکہ افریقی ممالک حتیٰ کہ ساﺅتھ امریکہ‘ بھارت‘ روس‘ چین اور آسٹریلیا بھی دہشت گردی کا شکار ہیں اور دہشت گردی سے متاثر ہونیوالے مسلمان خود بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان فورسز بہادری سے دہشت گردی کا مقابلہ کررہی ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستان کا ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا اور کہا کہ دنیا میں قیام امن اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دہشت گردی کیخلاف مسلم ممالک کو متحد کیا ہے۔ آج اس سلسلہ میں نئے دور کا آغاز ہورہا ہے‘ وہ امریکہ سے دوستی‘ محبت اور امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور امن انکی پہلی ترجیح ہے۔ قبل ازیں سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعمیری تعاون سے انتہاءپسندی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دہشت گردی اور انتہاءپسندی کیخلاف متحد ہونا ہوگا۔ اسلام رواداری کا دین ہے اور شریعت کا سب سے اہم مقصد انسانی جان کا تحفظ ہے‘ بدی کی قوتوں سے لڑنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران دیگر ملکوں کے معاملات میں مداخلت کررہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب طویل عرصے سے دہشت گردی سے متاثر ملک ہے‘ ہم نے دہشت گردی کی بہت سی کوششیں ناکام بنائی ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ دیگر ممالک بھی اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ہونگے۔ عرب اور مسلمان ملکوں کے رہنماءامریکی صدر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایران دنیا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی لہر میں سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا جس نے امریکی نائن الیون کے بعد افغان دھرتی پر امریکی نیٹو فورسز کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکی اتحادی افواج سے بھی زیادہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں جبکہ امریکی ”ڈومور“ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پاکستان نے اپنے تین ایئربیسز امریکہ کے حوالے کرکے اسے پاکستان ہی کی سرزمین پر دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر ڈرون حملوں اور دوسرے زمینی و فضائی اپریشنز کا موقع فراہم کیا تو اسکے ردعمل میں بھی پاکستان کو بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان ہنوز دہشت گردی کی جنگ کے الاﺅ میں دہک رہا ہے اور اپنی سکیورٹی فورسز کے ذریعے دہشت گردوں کیخلاف برسرپیکار ہے اور دہشت گردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑنے کے عزم پر کاربند ہے۔ اس تناظر میں توقع کی جارہی تھی کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی کسی مشترکہ حکمت عملی کے تعین کیلئے سعودب عرب کی میزبانی میں منعقد کی جانیوالی عرب امریکہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو فوکس کیا جائیگا اور اس کیلئے کانفرنس میں شریک وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی رائے سنی جائیگی اور انہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی ممکنہ حکمت عملی کیلئے پاکستان کے تجربات کی روشنی میں تجاویز پیش کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائیگا جس کیلئے وزیراعظم پاکستان مکمل تیاری بھی کرکے گئے تھے مگر یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دینے والے اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا اور قربانیوں کے حوالے سے نہ صرف بھارت کا بطور خاص تذکرہ کرکے پاکستان کے زخموں پر نمک پاشی کی بلکہ انہوں نے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے ممالک میں مصر‘ چین‘ روس اور آسٹریلیا تک کا ذکر کردیا۔ اگر کسی ملک کا نام انکی زبان پر نہ آیا تو وہ پاکستان تھا جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے ہوئے اے پی ایس پشاور‘ واہگہ بارڈر‘ گلشن اقبال پارک لاہور اور دربار سخی لال شہباز قلندر میں ہونیوالی دہشت گردی جیسے بدترین سانحات سے دوچار ہوچکا ہے اور جسے اس کا ازلی دشمن بھارت اپنے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن اور اس قبیل کے دوسرے دہشت گردوں کے ذریعے مسلسل اپنے ہدف پر رکھے ہوئے ہے جبکہ پاکستان بھارت کی ایسی گھناﺅنی سازشوں سے اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کو ایک ڈوژیئر کے ذریعے مکمل طور پر آگاہ بھی کرچکا ہے۔ اسی طرح کانفرنس میں مصر‘ ملائشیاءاور انڈونیشیا تک کو خطاب کا موقع فراہم کیا گیا اور نظرانداز ہوئے تو صرف وزیراعظم پاکستان۔
اس حقیقت حال کے باوجود ٹرمپ کا دہشت گردی سے متاثر ہونیوالے ممالک کے حوالے سے پاکستان کا تذکرہ نہ کرنا اور برادر سعودی عرب کی میزبانی میں منعقدہ سعودی‘ امریکہ سربراہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سرگرم اور اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پاکستان کے وزیراعظم کو اپنے ملک کی نمائندگی کے قابل بھی نہ سمجھنا ہلکے سے ہلکے الفاظ میں بھی پاکستان کی توہین سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس طرز تغافل میں.... ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے“ والا معاملہ ہی بنا نظر آتا ہے۔ یقیناً اس سے بڑی منافقت اور ریاکاری اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ امریکی صدر ٹرمپ کی زبان مبارک پر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کردار ادا کرنے کے حوالے سے افغانستان‘ متحدہ عرب امارات‘ ترکی اور بحرین تک کا نام آگیا‘ اگر کسی ملک کا نام انکی زبان پر نہ چڑھ سکا تو وہ دہشت گردی کی جنگ میں ان کا فرنٹ لائن اتحادی پاکستان تھا۔ اور تو اور‘ کانفرنس کے میزبان برادر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے بھی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا تذکرہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور اسکے برعکس انہوں نے برادر مسلم ملک ایران کو دہشت گردی کے فروغ کیلئے موردالزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس سے مسلم دنیا میں لامحالہ منافرت اور کشیدگی کی ایک نئی صورتحال پیدا ہوگی۔
ایران نے اسی تناظر میں ریاض کانفرنس میں اپنے فوری اور سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ سعودی عرب اپنے ملکی‘ علاقائی اور یمن کے حوالے سے پیدا ہونیوالے مسائل کے باعث تنہائی محسوس کررہا ہے‘ جس نے اس کانفرنس کے ذریعے انتہاءپسند نظریات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بحرام قاسمی نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز تہران میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاض سعودی سربراہ کانفرنس علاقے میں یہودی پالیسیوں اور منصوبوں کی عکاس ہے اور اس سے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ برادر ایران کے اس موقف کو یقیناً امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر سے بھی تقویت حاصل ہوئی ہے جنہوں نے دہشت گردی کے فروغ کے حوالے سے براہ راست ایران کو موردالزام ٹھہرایا اور بالخصوص بھارت کو دہشت گردی کا شکار قرار دیا۔ اس کانفرنس کے بعد اب سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے اسلامی فوجی اتحاد کے اصل مقاصد و محرکات پر بھی ازسرنو انگلیاں اٹھیں گی کیونکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ایران کو دوسرے ممالک میں مداخلت کا موردالزام ٹھہرا کر اور دہشت گردی کے فروغ کے الزامات میں بھی ایران ہی کو فوکس کرکے یہ واضح عندیہ دے دیا ہے کہ اسلامی نیٹو اتحاد کو ایران کیخلاف بروئے کار لایا جائیگا جس کیلئے انہوں نے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہونے کا بھی عندیہ دے دیا۔ اس حوالے سے اسلامی نیٹو اتحاد میں پاکستان کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں اور اس پر ایران کیخلاف جانبداری کا الزام لگ سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف حکومت پاکستان کی جانب سے باضابطہ طور پر این او سی ملنے کے بعد اسلامی نیٹو اتحاد کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں جو گزشتہ روز سعودی‘ امریکہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں موجود بھی تھے اور اس کانفرنس کے شرکاءکی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔
جب کچھ عرصہ قبل جنرل راحیل شریف کے اسلامی نیٹو افواج کے سربراہ بننے کی افواہیں گرم ہوئیں تو پاکستان کے مختلف حلقوں کی جانب سے اسی تناظر میں اسلامی اتحادی افواج کیلئے جنرل راحیل شریف کی قیادت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ افواج ایران یا کسی دوسرے برادر مسلم ملک کی سلامتی کیخلاف استعمال ہوئیں تو پاکستان قطعی طور پر جانبدار ہو جائیگا اور اس کا ایٹمی ملک ہونے کے ناطے اسلامی دنیا کی قیادت والا تشخص جانبداری کے لیبل کے نیچے دفن ہو جائیگا۔ یہ صورتحال یقیناً حکومت پاکستان کیلئے بھی لمحہ¿ فکریہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی بے پناہ قربانیوں اور جاندار کردار کے باوجود اور بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی گھناﺅنی بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرکے بھی ہم ایک جانب عرب امریکہ سربراہی کانفرنس میں عالمی اور عرب قیادتوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوئے اور اسلامی نیٹو افواج کی سربراہی کی بنیاد پر ہم پر جانبداری کا لیبل لگنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رہی۔ یقیناً اس سے قوم کے ذہنوں میں مزید تجسس اور استفسارات پیدا ہونگے اس لئے بہتر یہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ملک واپس آکر عرب امریکہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے حوالے سے اصل حقائق سے قوم کو پارلیمنٹ کے ذریعے آگاہ کریں اور قومی خارجہ پالیسیاں ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کی جائیں۔ اگر قوم کے سامنے تمام حقائق کھول کر بیان نہیں کئے جائینگے تو اسے اپنے حکمرانوں کے احتساب‘ مواخذے اور جوابدہی کا بھی مکمل حق حاصل ہوگا۔
بطور مسلم نیوکلیئر پاور ہمیں پاکستان کی اہمیت ہر صورت منوانا ہو گی
May 23, 2017