سوشل میڈیااوردہشت گردی کی جنگ!

جنرل باجوہ بڑے بہادرانسان ہیں انہوںنے ڈان لیکس پرٹوئیٹ واپس لیکرنہ صرف سول حکومت اورفوج کوایک بحران سے بچالیاجبکہ ایک عقلمندسپہ سالارکاثبوت دیاہے۔سول دنیامیں اصول ہے کہ اگرکوئی اقدام غلط ہوجائے تواس پرضد نہیں کی جاتی بلکہ پیچھے ہٹاجاتاہے۔ غلط فیصلے پرضدتباہی مچاتی ہے جبکہ غلط فیصلے کوواپس لینے سے نئی بہارآتی ہے۔ٹوئیٹ کی واپسی کوکسی کی ہاریاجیت قرارنہیں دیاجاسکتا۔میں پہلے دن سے کہہ رہاہوں کہ سول اورفوجی قیادت کاآمنے سامنے ہوناکسی طرح بھی درست نہیں۔ تمام ادارے مل کر اور سول حکومت کی قیادت میں ہی ملک کوآگے لے کرچل سکتے ہیں اورآئین تمام اداروں کومنتخب حکومت کے احکامات پر عملدرآمدکا پابند بناتا ہے۔ بہرحال ایک انتہائی درست فیصلہ کیاگیا اس کوفوج کی شکست یاپسپائی سے تعبیرنہیں کرناچاہئے۔ بدقسمتی سے Retdلوگوں کا whatsappگروپ سول حکومتوں کوبرداشت کرنے کوتیارنہیں ان کی خواہش یہ رہی ہے کہ فوج جلد از جلد اقتدار پر قبضہ کرلے ملک کو چلنے دینا چاہئے۔ جمہوریت کومضبوط کرکے ہی ملک کوترقی کی طرف لے جایا جا سکتاہے فوج کاکام ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے جب سے دنیامیں دہشت گردی آئی ہے اور پاکستان بھی اس کاشکارہواہے تو پاک فوج دہشتگردوں کے مقابلے کیلئے جانوں کی قربانیاں دے رہی ہے۔ گزشتہ روز جی ایچ کیو میں ’’انتہاپسندی کومستردکرنے میں نوجوانوں کاکردار ہے‘‘ کے عنوان سے سیمینارمنعقدہواجنرل قمر جاوید باجوہ نے لوگوںسے خطاب کے دوران دہشت گردی کی جڑکو بے نقاب کیا۔ انہوںنے کہاکہ ناقص حکمرانی اورانصاف نہ ہونے سے نوجوانوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ نوجوان ہمارے ملک کے مستقبل کاسرمایہ ہیں لیکن بے چہرہ اوربے نام قوتیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کومسلسل گمراہ کررہے ہیں۔انہیں بامقصدزندگی میں مصروف کیاجائے۔دہشت گردی کو شکست دینے کے بعدانکے بیانیے کوبھی شکست دینا ہوگی۔ سکیورٹی خدشات کم کرنے ہی سے ترقی کاسفرآگے بڑھے گا۔فوج اکیلے کچھ نہیں کرسکتی سب کواپنی ذمہ داریاں سنبھالناہونگی۔دہشت گردی کاوجودختم کیاجائے۔نیشنل ایکشن پلان پرا کی روکے مطابق عمل کرکے دہشت گردی کیخلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے۔نوجوان نسل ہماراروشن مستقبل ہے اوراپنے مستقبل کودہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ شدت پسندی کسی نظریے کانام نہیں بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جوعدم برداشت پیدا کرتا ہے۔دہشت گردی کو اسلام سے جوڑناانتہائی غلط اور افسوسناک ہے۔ جنرل قمر جاویدباجوہ نے نوجوانوں کی کانفرنس منعقدکرکے انہیں قومی امورمیں شامل کیاہے اورنہ صرف مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے بلکہ حل کیلئے تعاون بھی مانگاہے۔ فوج کواپنی ذمہ داریوں کااحساس ہے تو حکومت اور اپوزیشن کواپنے اپنے رول کی فکرہے۔ اپوزیشن کاکام حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کرنا اورکسی قسم کی گڑبڑنہ ہونے دینا اور اگر ہوجائے توپھراحتجاج کرنا۔اس طرح حکومت کاکام گڈگورننس دینااورعوامی فلاح کامنصوبہ بنانا۔آج کے دورمیں کسی کے مفادمیں نہیں کہ فوج اقتدار میں آئے اورنہ ہی فوج اکیلے اقتدارسنبھال کرملک کے مسائل کو بہترطریقے سے حل کرسکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تحریک انصاف کبھی نہیں چاہے گی کہ فوج اقتدارمیں آئے۔ سول حکومت چلنے اورجمہوریت مضبوط ہونے میں ہی سب کوفائدہ ہے۔اسی طرح پاک فوج کوکمزورکرنے کاکسی کوکوئی فائدہ نہیں۔ ملک کے بہترین مفادمیں ہے کہ فوج مضبوط ہو۔مسلم لیگ(ن)کی حکومت ہویاتحریک انصاف کی فوج مضبوط ہوگی توملک کوفائدہ ہوگااورہم دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکاراحاصل کرسکتے ہیں۔فوج کوبدنام کرکے بھی ہم ملک کانقصان کرینگے ۔ سوشل میڈیاپرفوج کے خلاف اچھی زبان استعمال نہیں ہو رہی۔ وزارت داخلہ نے اس کانوٹس لیاہے اورتحریک انصاف کے کارکنوں کوبھی گرفتارکیاہے ان کارکنوں کو رہا کرنا چاہئے لیکن اسکے ساتھ ساتھ فوج اورعدلیہ کے بارے میں غلیظ گفتگو نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارے نوجوانوں کواحساس ہونا چاہئے کہ اگر وہ عدلیہ اورفوج کو بدنام کرینگے تو ملک کمزور ہوگا جمہوریت ناکام ہوگی اور دشمنوں کو فائدہ ہو گا۔ حکومت کوچاہئے کہ گرفتاریوں کے بجائے نوجوانوں کو قائل کرے۔ اس قسم کے معاملات میں دبائویاجبرسے مسئلہ حل نہیں ہوتا اور نوجوانوں تک یہ پیغام جانا چاہئے کہ فوج اورعدلیہ کو بدنام کرنا ملکی سالمیت کے خلاف سازش ہے اور نوجوانوں کو نادانی اور معصومیت میں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ فوج ایک طرف دہشتگردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑ رہی ہے اور سینکڑوں لوگ شہید ہو چکے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کا نوجوان فوج کو بدنام کرے گا تو demoralise ہو گی۔ ایسا نہیں ہونے دینا چاہئے ہمیں جہاں سول حکومت کو مضبوط کرنا ہو گا جمہوریت کو توانا درخت بنانا ہو گا وہاں فوج کو بھی مضبوط کرنا اور پوری طرح سپورٹ کرنا ہو گا کیونکہ دہشت گردی توانکے بارڈر پرآئی ہوئی ہے۔آج پوری دنیااس سے لڑنے کیلئے متحدہورہی ہے۔ امریکن عرب کانفرنس میںدہشت گردی کے خلاف اتحادقائم ہواہے ۔ 55ملکوں کی اس کانفرنس میں پاکستان بھی شریک ہے۔امریکی صدرٹرمپ نے بہت اچھی باتیں کی ہیں اور دہشت گردی کیخلاف امریکہ کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کوشکست دیناہمارامشترکہ مقصدہے اور اس کا مقصداپنی آئندہ نسلوں کوباعزت اورمحفوظ مستقبل دینا ہے۔ آج اربوں لوگ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہم نے دہشت گردی کاخاتمہ نہیں کیاتومستقبل مزیدخطرناک ہوگا۔ اگر سب ملک مل کردہشت گردی کیخلاف لڑیں گے توکوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ امریکی صدرنے کہاکہ ہم یہاں لیکچردینے نہیں آئے اورنہ ہی یہ بتانے آئے ہیں کہ عبادت کیسے کرنی ہے اس کی بجائے ہمیں بہترمستقبل کی سرپرستی کرنے کی پیشکش کرنی ہے انہوں نے بڑے زور انداز میں کہا کہ ایسے لوگوں کواپنی سوسائٹی سے نکال دیناچاہئے ایسے لوگوں کوعبادت گاہوںسے بھی نکال دیناچاہئے کیونکہ دہشت گرد خداکی عبادت نہیں کرتے بلکہ وہ موت کی عبادت کرتے ہیں اس لئے ان کومقدس حقائق سے بھی نکال دینا چاہئے۔صدرٹرمپ اپنی الیکشن مہم کے دوران والے خیالات سے باہرنکل آئے ہیں اورمسلمانوں کواچھے طریقے سے ڈیل کر رہے ہیں انہیں مسلمانوں کی اہمیت کااحساس ہوا ہے۔ صدرٹرمپ کویہ بھی معلوم ہوگیاکہ مسلمان ممالک خوداس مصیبت کاشکارہیںدہشت گرد چند لوگ ہیں جونہ صرف دنیاکابلکہ مسلمان ملکوں کا امن تباہ کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے کانفرنس منعقد کرکے ایک شاندارکام کیاہے آج اس بات کی اشدضرورت تھی کہ مسلمان اپنے اوپرلگے ہوئے الزامات کوعملی طورپرغلط ثابت کریں۔شاہ سلمان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درست کہاکہ بدی کی قوتوں سے لڑنامسلمان ملکوں کی دینی اور ریاستی ذمہ داری ہے۔ ہمیں دنیامیں امن واستحکام کیلئے مشترکہ کوشش کرنی ہے۔ دہشتگردی پوری دنیاکیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ انہوں نے بڑے اچھے اندازمیںکہاکہ داعش اوردیگردہشت گرد تنظیموں کیخلاف لڑنے کیلئے پرعزم ہیںچاہے ان کاکوئی بھی نظریہ یامسلک ہو۔اسلامی فوجی اتحادبنانے کا مقصددہشت گردی کامقابلہ کرناہے کیونکہ اسلام امن، سلامتی اور رواداری کا درس دیتا ہے پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ میں بڑی اہمیت ہے اسی لئے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کو خصوصی طور پر بلایا گیا کانفرنس میں بلا کر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوشش کا اعتراف کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے پاکستان کے موقف کی زبردست ترجمانی کی ہے اور پاکستان کی کوشش سے کانفرنس کو آگاہ کیا اور یہ کوششیں پاک فوج کی مددکے بغیر ممکن نہیں تھی اسی لئے سوشل میڈیا کو فوج کیخلاف استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے اس کے سوشل میڈیامیں فوج کیخلاف نفرت پھیلانے کا کوئی جواز نہیں بلکہ ان کی قربانیوںکوسراہنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن