بیت المقدس میں سفارت خانوں کی منتقلی کا سلسلہ جاری

May 23, 2018

اسرائیل میں غیر ملکی سفارتخانوں کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کا سلسلہ جاری ہے جس پر فلسطین اور اس کے حامی ممالک کی جانب سے امریکہ سمیت اس کے اتحادیوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ امریکہ گوئٹے مالا کے بعد اب پیراگوئے نے بھی اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس میں منتقل کر لیا ہے۔ فلسطین کی نمائندہ حکومت اور تنظیم آزادی فلسطین نے عرب اسلامی ممالک اور غیر وابستہ ممالک کی تنظیم پر زور دیا ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کے حق میں ایسے ممالک کا بائیکاٹ کیا جائے جو امریکی دبائو میں آکر بیت المقدس میں سفارتخانہ منتقل کر رہے ہیں۔ پی ایل او کی ترجمان حنان اشرفی نے اپنے برقی پیغام میں پیرا گوئے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی سطح پر منظور شدہ قراردادوں اور انٹرنیشنل قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کے اقدامات پیراگوئے کی اس قانون شکنی کی صورت میں اشتعال انگیز کارروائی کا حصہ ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی ڈکٹیشن پر سفارتخانوں کی منتقلی پر ردعمل میں فلسطین کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس مہم کو عالمی سطح پر رد کرنے کی غرض سے سیاسی سفارتی اور قانونی محاذ پر اس کا تقاقب کیا جاتا رہے گا۔ اسرائیل میں گوئٹے مالا کے سفارتخانے کی تبدیلی کے موقع پر دونوں ملکوں سے صدر کیرٹس اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے تقریب میں شرکت کی۔ دوسری جانب اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)کے 57ممالک نے غزہ میں احتجاج کرنے والے فلسطینی عوام پر اسرائیل کے حملوں اور اس قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطین کے وزیراعظم رمی حمد اللہ اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کیلئے اقوام عالم کی شرکت سے ایک کثیر الجہت طریقہ کار وضع کرنا ہوگا تاہم فلسطین نے ان کوششوں میں امریکہ کے بطور ثالث کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ترکی کے صدر طبیب اردگان نے اس اہم موقع پراسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلا کر بروقت یہ قدم اٹھایا ہے اور اسرائیل کے خلاف نہتے فلسطینیوں کے قتل عام پر کارروائی کیلئے متحدہ محاذ تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کے غزہ میں حملوں پر ترکی کی حکومت کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے جب اس نے تل ابیب اور واشنگٹن میں اپنے سفیروں سمیت انقرہ، استنبول سے اسرائیلی سفارتکاروں کو عارضی طور پر سفارتخانے چھوڑ دینے کی ہدایت کی ہے۔ ترکی کے وزیراعظم نے دنیا کے دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی جائے۔ صدر اردگان نے واضح کردیا کہ القدس کیلئے جاری جدوجہد پوری دنیا کے مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اسلامی کانفرنس نے اپنی سرزمین کو جس القدس کا نام دیا ہے اس کی حفاظت میں اسرائیلی کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جسے کسی قیمت پر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل کا ریاستی تشدد القدس کو اپنا قبلہ اول ماننے والوں کو اس کی حفاظت سے باز نہیں رکھ سکتا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل یوسف بن احمد التحامین نے صہیونیت کے ان بے رحم کارروائیوں پر منصفانہ تحقیقات اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکی کے صدر طیب اردگان نے ان دنوں اجلاس و پریس کانفرنس طلب کرکے او آئی سی کے عہدیداروں سے ملاقات کے علاوہ آگے بڑھ کر جس طرح اسرائیل کے خلاف ملکی سطح پر عوامی ریلی کا انعقاد کیا ہے اس احتجاج نے بلاشبہ مشرقی وسطیٰ میں امریکی اسرائیل نواز پالیسیوں کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے ۔اس دوران روس اور جرمن کے سربراہان نے ایران کے ساتھ امریکہ کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے اعلان پر دیگر یورپی ممالک کی تائید میں امریکہ کو صورتحال خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے واضح کیا کہ شام کے مسئلے پر دونوں ملک اقوام متحدہ کی ثالثی کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔
(زینہوا نیوز)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مزیدخبریں