عمران خان کا 100 دن کا پلان

جوں جوں 2018کے جنرل الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے ہر جماعت عوام کے سامنے بڑھ چڑھ کر اپنا ایجنڈا پیش کر رہی ہے۔ مگر پاکستان تحریک انصاف جس انداز اور تیزی کے ساتھ حکمرانی کے اصول اور مسائل کے حل کیلئے کبھی نکات اور کبھی 100دن کا ایجنڈا لے کر سامنے آرہی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ آئندہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پکی ہے۔ اور وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تنقید کی بجائے اس کو خوش آمدید کرنا چاہئے۔ عمران خان نے مینار پاکستان کے جلسے میں دو نہیں ایک پاکستان کے سلوگن کے ساتھ گیارہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔ جس میں تعلیم ، صحت ، ریونیوجنریشن ، کرپشن ، انویسٹمنٹ ، روزگار ، زرعی فیڈریشن ، پالیسی سسٹم ، ویمن empowermentشامل تھا۔ لیکن اب عمران خان نے برسراقتدارآتے ہی 100دن کا پلان دیا ہے انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ 100دن پارٹی کی عکاسی کریں گے کہ پارٹی کس راستے پر گامزن ہے۔ عمران خان نے 100دن کے پلان میں طرزِحکومت بہتر زرعی ایمرجنسی ، صحت ، تعلیم ، معاشی بحالی ، بیوروکریسی اور پولیس میں سیاسی مداخلت 5سال میں 1کروڑنوکریاں ،50لاکھ گھر، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے اور نیب کو خودمختار دینے کی منصوبہ بندی شامل ہے۔
اس کے علاوہ جوڈیشل ریفارمز اور وزارت خارجہ کو مضبوط بنانے کا آغاز بھی کیا جائے گا۔عمران خان کے 100دن کے پلان میں میجر حصہ ریفارمز کا ہے جو قومی اسمبلیاںاور سینیٹ سے ہو گی۔ قومی اسمبلی میں 2018کے الیکشن میں جیت کے بعد اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو قومی اسمبلی سے بل منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے پاس کروانا ہوگا۔ مگر سینیٹ میں 104کے ایوان میں پی ٹی آئی کے تقریباً بارہ اراکین ہیں۔ اسلیئے تحریک انصاف کی حکومت کیلئے سولو قانون سازی کرنا ناممکن ہے۔ البتہ اگر اتحاد کرلیا جائے۔ تو 100دن کے ایجنڈے کے اصلاحاتی پروگرام پرعمل ممکن ہو سکتا ہے۔
اب آجائیں عمران کے ساتھ ٹیم کون سی ہو گی جو اس پلان کو کامیاب بنائے گی، تو وہ ہی ٹیم ہو گی۔ جس نے پلان کا اعلان کیا ہے ، شیریں مزاری ، اسد عمر، شاہ محمودقریشی اور جہانگیر ترین ۔ جہانگیر ترین نوازشریف کی طرح سپریم کورٹ سے نااہل ہو چکے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کو اپنی ٹیم بناتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ فضابن نہیں رہی ۔ بنائی جارہی ہے۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ تحریک انصاف کو آزمالینا چاہیے ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کی ہے تو اب عمران خان کو اقتدار دینے میں کیا حرج ہے اْس کے بعد کیا ہو گا اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔
عمران خان نے 11نکات اور 100دن کے پلان میں بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے ہونگے اس پر کیا پالیسی ہو گی اس پر بات نہیں کی۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ عمران خان بھارت یاترا کے بعد واپس آئے تھے لاہور میں صحافیوں کو دورہ بھارت پر بریفنگ دی تھی اْس وقت عمران خان نے کہا تھا کہ ہمیں بھارت کے ساتھ ٹریڈ کرنی چاہیے۔ جب میں نے سوال کیا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس پر رضامند ہو گی تو عمران خان نے جواب دیا تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ کو بٹھانا چاہیے۔ نوازشریف پہلے ہی کہتے ہیں سکیورٹی پالیسی اور فارن پالیسی کی وجہ سے انھیں نکالا گیا ہے۔ دیکھنا ہو گا عمران خان حکومت میں اگر آتے ہیں تو سکیورٹی اور فارن پالیسی پلان میں سب کی رضامندی سے چلتے ہیں یا پھر اپنی الگ پالیسی دیں گے۔

ای پیپر دی نیشن