بھارتی سپریم کورٹ نے پورے ملک میں گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دینے کی ایک قانونی درخواست مسترد کر دی ہے۔ گائے کو گوشت کے لیے ذبح کرنا ملک کی ہندو اکثریتی آبادی کے لیے بہت حساس معاملہ ہے، جو اس جانور کو مقدس سمجھتی ہے۔کئی بھارتی ریاستوں میں گائے ذبح کرنا اور بیف بیچنا یا اپنے قبضے میں رکھنا قانوناً منع ہے۔ یہ مقدمہ گائے ذبح کرنے یا ’گاؤ ہتیہ‘ کے خلاف سرگرم ایک معروف سیاسی کارکن کی طرف سے دائر کیا گیا تھا، جس نے مطالبہ کیا تھا کہ عدالت عظمیٰ کو پورے بھارت میں گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دینا چاہیے۔اگر عدالت یہ قانونی درخواست منظور کرتے ہوئے پابندی لگا دیتی تو سوا ارب نفوس پر مشتمل اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں گائے کا گوشت یا بیف کھایا جانا عملاً ممنوع ہو جاتا۔بھارت میں اکثریتی ہندو آبادی گائے کو اپنی مذہبی روایات کے مطابق ’تہذیب کی ماں‘ سمجھتی ہے اور اس جانور کو ہندوؤں کی طرف سے عام طور پر ’گاؤ ماتا‘ کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ اسی لیے ہندو مت کے احکامات پر عمل کرنے والے بہت سے افراد کے مطابق بیف کے لیے گائے کو ذبح کرنا ’توہین مذہب‘ کے زمرے میں آتا ہے۔لیکن بھارت ہی میں مختلف مذہبی اقلیتوں کی مجموعی آبادی بھی کئی کروڑ بنتی ہے اور ان میں مسلمانوں کے علاوہ مسیحی اور نچلے سماجی طبقات کے ہندو بھی شامل ہیں، جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ بھارت میں بیف ہر یونین ریاست میں نہیں بیچا جاتا اور کئی صوبوں میں تو گائے ذبح کرنا قانوناً منع بھی ہے۔بھارت کے 29 صوبوں میں سے صرف آٹھ ایسے ہیں، جہاں گائے ذبح کرنا، بیف بیچنا اور کھانا قانوناً منع نہیں ہے۔ اس حوالے سے نئی دہلی میں ملکی سپریم کورٹ نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا، ’’کوئی ریاست چاہے تو گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے۔ اور اگر وہ چاہے تو ایسا نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ اس سلسلے میں ریاستی قوانین میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔‘‘بھارت میں کئی بنیاد پرست ہندو مذہبی گروپوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کی طرف سے طویل عرصے سے یہ مہم چلائی جاتی رہی ہے کہ پورے ملک میں گائے ذبح کرنے اور گائے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کی جانا چا ہیے۔بھارت میں ہندوقوم پرست حکومت نے اپنے مقدس جانور گائے کو بچانے کیلئے تمام حدیں عبور کر لیں۔بھارتی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں میونسپل کارپوریشن نے جین مت کے تہوار کے پیش نظر 8 روز کیلئے شہر بھر میں گوشت کی فروخت پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ اس دوران مرغی بکرے یا کسی پرندے کا بھی گوشت فروخت نہیں کیا جا سکے گا۔حکومت نے گجرات میں ایسے بورڈ بھی آویزاں کر دیئے جن پر درج تحریر میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ قرآن میں بھی گائے کا گوشت کھانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ بھارتی مسلمان رہنماؤں نے ایسی تشہیری مہم کواسلام کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن میں کوئی آیت موجود نہیں جو مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے خلاف تنبیہ کرتی ہو۔ ریاست گجرات کی ہندوقوم پسند حکومت کی تشہری مہم انتہائی متنازعہ ہو گئی۔ ملک کی ہندو اکثریت کی طرف سے اپنے مقدس جانور گائے کے تحفظ کیلئے کی جانے والی متنازعہ کوشش کے بعد بھارتی مسلمان شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ریاست گجرات میں حکومت نے کئی مقامات پر تشہر کیلئے ایسے بل بورڈز لگا دیئے ہیں جن میں مبینہ طور پر یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ قرآن میں ایک آیت کی صورت میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ گائے کا گوشت کھانے سے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔بھارت میں ہندو انتہا پسند گروپ طویل عرصے سے یہ کوششیں کر رہے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانے پر پورے ملک میں پابندی عائد کی جانی چاہیے کیونکہ گائے ہندوؤں کیلئے ایک مقدس جانور ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ گجرات میں حکومت کی طرف سے جو اشتہاری مہم شروع کی گئی ہے۔ حکومت کی اس تشہری مہم پر اپنے سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے احمد آباد کی مرکزی جامع مسجد کے ایک مذہبی رہنما شبیر عالم نے حکومتی مہم کو اسلام کی توہین کے مترداف قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرآن میں کوئی آیت موجود نہیں جو مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے خلاف تنبیہ کرتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بل بورڈز بدامنی کی وجہ بن کر امن عامہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ بات ہندوؤں اور مسلمانوں کے آپس میں تعلقات کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔بھارتی ریاست مدھیا پردیش میں ہندو انتہاپسندی کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب انتہا پسندوں نے ایک اور مسلمان کو گاؤ رکشک کی بھینٹ چڑھا دیا۔مدھیہ پردیش کے ضلع ستنا میں انتہا پسندوں نے گائے ذبیحہ کے الزام میں ریاض نامی شہری کو اس کے دوست کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا۔45 سالہ مسلمان شہری زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔پولیس نے قتل اور تشدد کے الزام میں 4 افراد کو گرفتار کر لیا۔مدھیہ پردیش میں گائے ذبح کرنے پر ملزم کو 7 سال قید اور 5 ہزار روپے جرمانے کی سزا کا قانون رائج ہے۔ ریاست نے اس حوالے سے 2012 میں قانون میں ترمیم کی تھی۔ مشتعل ہجوم نے گائے ذبح کرنے کا الزا م لگاتے ہوئے 45 سالہ ریاض کو لاٹھی اور پتھر سے تشدد کا نشانہ بنایا اس کا دوست 33 سالہ شکیل واقعے میں شدید زخمی ہوا۔واقعے کے بعد ہجوم جائے وقوع سے فرار ہوگیا۔ مذکورہ علاقے کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے جہاں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ 2 روزہ دورے پر موجود ہیں۔بعد ازاں پولیس نے 4 ملزموں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف قتل کا مقد مہ درج کرلیا۔ پولیس افسر راجیش ہنگانکر کا کہنا تھا کہ ایک ذبح کیے گئے بیل اور دیگر 2 جانوروں کے گوشت سے بھرے بیگ بھی برآمد کیے گئے ہیں۔ واقعہ کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ہیں جبکہ امن و امان کو بحال رکھنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری علاقے میں تعینات کی گئی ہے۔گذشتہ کچھ سالوں کے دوران گائے سمگل کرنے یا گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں ہندو انتہا پسندوں کے حملوں میں ایک درجن سے زائد مسلمان مارے جاچکے ہیں۔ 2014 کے انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی وجہ سے ان انتہاپسند افراد کو زیادہ حوصلہ ملا۔