میری صدر میں کپڑوں کی دکان تھی۔بڑا گھر، دھن، دولت سب کچھ تھا۔گھر والی بھی بہت اچھی تھی، ہمارا ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ ابھی بہت چھوٹا تھا،پھر؟۔۔۔۔امجد یہ کہتے کہتے چپ کرگیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔۔۔اولڈ ہوم میں موجود سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا باباجی پھر۔۔پھر کیا ہوا۔۔۔؟بڑی مشکل سے امجد نے حوصلہ کیا اور آنسوئوںکوضبط کرکے بولا۔ پھر بھاگیوان ایک حادثے کاشکار ہوکر چل بسی۔ مجھے سب نے سمجھایا کہ دوسری شادی کرلو لیکن لیکن میں نے اپنے بیٹے کے لئے نہیں کی۔۔۔میں نے کاروباربھی چلایا اور گھر کوبھی دیکھا، اپنے بیٹے کے لئے اپنی زندگی ختم کردی اس آس پر کہ اس دنیامیں ہم دونوں ہی ہیں اور جب یہ بڑا ہوجائے گا تواس کی بیوی مجھے سکھ دے گی لیکن اوپروالے کو کچھ اور ہی منظور تھا۔میںنے اس کی شادی کی،بڑے گھر کی بہو لایا۔۔۔میں بوڑھا ہوچکا تھا، میری کمر جھک گئی تھی اور مجھے کھانسی بھی آتی تھی۔میری بہو اس بات سے بہت تنگ تھی۔۔۔پھر پھر۔۔۔؟امجد کی آنکھوں سے آنسو ساون کی جھڑی کی طرح بہنے لگے۔۔ سب نے دلاسا دیا اور پانی پلایا۔ امجد کچھ دیر کے بعد بولا۔۔ ایک دن مجھے میرا بیٹا،جسے میں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔۔۔ وہ مجھے اپنی بیوی کے کہنے پر یہاں چھوڑ کرچلاگیا اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔۔۔امجد کی طرح اولڈ ہوم میں آئے ہر بوڑھے،بڑھیا کی کہانی ایک جیسی ہی تھی لیکن نجانے وہ بچے جو اپنے گھر کے بزرگوں کواولڈ ہوم میں چھوڑتے ہوئے ایک لمحہ نہیں لگاتے، وہ اپنے انجام سے بے خبر ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسے ہزاروں امجد ہیں جن کی دعائیں رنگ لے آئی ہیں۔پاکستان میں حال ہی میں ایک آرڈیننس جاری کیاگیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی شخص والدین کو گھر سے نہیں نکال سکے گا چاہے وہ گھر ان کے بہن بھائیوں یا اولاد ہی کے نام پر کیوں نہ ہو۔پیرنٹل پروٹیکشن آرڈیننس 2021 کے مطابق جرم ثابت ہونے کی صورت میں ماں باپ کو گھر سے بے دخل کرنے والے افراد کو ایک سال قید یا جرمانے یا پھر دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قانون کے مطابق اگر گھر والدین کے نام پر ہو تو وہ اولاد کو گھر سے نکال سکتے ہیں۔والدین کی طرف سے گھر خالی کرنے کا نوٹس ملنے کے باوجود اگر بچے گھر خالی نہیں کرتے تو انہیں ایک ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو کارروائی کرنے کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔پولیس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بغیر وارنٹ کے گھر خالی نہ کرنے والوں کو گرفتار کر سکتی ہے تاہم والدین اور بچوں دونوں کو اپیل کرنے کا حق ہو گا۔پاکستان کے کئی شہروں میں معمر افراد کے لیے اولڈ ایج ہومز یا کیئر سنٹر کافی عرصہ سے موجود ہیں تاہم آج بھی مقامی خاندانی روایات میں والدین کو گھروں سے بے دخل کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔اولڈ ایج ہومز میں آنے والے ماں باپ اپنی اولادوں اور ان کے بچوں کے چہرے دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔تاہم حالیہ صدارتی آرڈیننس معمر افراد کو ان کی اولاد کی طرف سے گھروں سے نہ نکالنے کے حوالے سے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔قانون کے اندر اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اگر اولاد کی طرف سے والدین کو اذیت کا سامنا ہو تو وہ اولاد کو گھر سے نکال سکتے ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کا رشتہ بھی ایسا بنایا ہے کہ اس میں پیار ہی پیار بسا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ اولاد کا پیار ماں باپ کے لیے ہر چیز سے عزیز رکھا ہے۔ انسان اپنی اولاد کو اس امید پر پالتے ہیں، پڑھاتے ہیں اور اس قابل بناتے ہیں کہ جب وہ خود بوڑھے اور کمزور ہو جائیں گے تو یہ اولاد ان کا سہارا بنے گی۔دور سے دور بدلتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ معاشرے میں اقدار بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں مگر اسی دور میں جو بچے اپنے والدین کے ساتھ کررہے ہیں وہ نہ تو دیکھنے کے قابل ہیں اور نہ برداشت کے۔ ہم نے اسلام اور اپنے کلچر کو چھوڑ کر یورپ کی پیروی کرنا شروع کردی ہے جہاں پر جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کو اولڈ ہومز میں ڈال دیا جاتا ہے جس کا خرچہ کبھی وہ خود دیتے ہیں ورنہ حکومت یا پھر این جی اوز برداشت کرتی ہیں۔ ۔اگر ہم اللہ کے احکامات پر عمل کریں تو وہ دن دور نہیں جب یہ اولڈ ایج ہومز ویران ہوجائیں گے اور ہمارے گھر ان بزرگوں کی وجہ سے پھر سے آباد ہو جائیں گے۔
والدین، اولڈ ہومز اورنیا آرڈیننس
May 23, 2021