دنیا میں ہمارا کاروبار نفع کی بنیاد پر اور عبادتیں ثواب کے گرد گھومتی ہیں۔ ایمان ایک بالکل الگ چیزہے جس کے دعوے دار تو ہم سب ہیں لیکن ایمان کے معیار یا ایمان کی معراج کو دیکھنا ہو تو یہ واقعہ ہمارے لئے نہایت ایمان افروز اور باعث برکت ہے۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ سرکار دو عالم حضرت محمد ﷺ صحابہ کرام ؓ کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ !میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آگیا ۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں۔ اس نے دینے سے انکار کیاتو میں نے کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکش کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔سرکار دوعالمﷺ نے اس نوجوان کے ہمسائے کو بلوایا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپﷺ نے اُس نوجوان کی شکایت سنائی جسے اس نے تسلیم کیا کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ آپﷺ نے اسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا درخت کو اس کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔ آپﷺ نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا۔ کھجور کا درخت اس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ دنیا کے ایک درخت کے بدلے میں آپ ﷺ کی جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جس کو سن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام ؓ دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنّت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر ہائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آگئی اور اس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کر دیا۔ مجلس میں موجود ایک صحابی ابا الدحداح ؓ آگے بڑھے اور حضور اکرم ﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اگرمیں کسی طرح وہ درخت خرید کر اس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپﷺ نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔ ابا الدحداح ؓ اس آدمی کی طرف پلٹے اور اس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اس آدمی نے فوراً جواب دیا جی کیوں نہیں ، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو ابا الدحداح ؓ کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو۔ ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے۔ باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنوں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلیٰ اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ابا الدحداح ؓ نے اس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا تو پھر کیا تم اپنے اس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ ، محل، کنویں اور اس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟اس شخص نے غیر یقینی سے سرکار دو عالم ﷺ کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے درخت کے بدلے میں اسے ابا لدحداح ؓ کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آرہا تھا۔ حضور پاک ﷺ اور مجلس میں موجود صحابہ کرام ؓ نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔ ابا لدحداح ؓ نے خوشی سے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا اور سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ جنت میں میر اایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، ابا لدحداحؓ سرکار ﷺ کے جواب سے حیرت زدہ ہوئے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جودو کرم میں بے مثال ہے۔ انہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطا کیے ہیں کہ انکی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ابا الدحداح ؓ میں تجھے پھل سے لدے ہوئے ان درختوں کی کس قدر تعریف بیان کروں؟آپ ﷺ اپنی اس بات کو اس قدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا کہ اے کاش وہ ابا لدحداحؓ ہوتا۔ ابا لدحداح ؓ وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چھپا نہ پارہے تھے۔گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل، کنواں بیچ دیا ہے۔ بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے اپنے خاوند سے پوچھا ابا لدحداحؓ کتنے میں بیچا ہے یہ سب کچھ ابا لداحداحؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔ ابا لدحداح ؓ کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا، ابا لدحداحؓ تونے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابا لدحداح ؓتونے منافع کا سودا کیا ہے۔
اسی طرح ایک دعا بھی ہمارے لئے باعث بخشش و تقلید ہے کہ حضرت عمر ؓ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں سرور کائنات ﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت کیلئے گئے وہاں روضہ کے سامنے ایک (اعرابی) دیہاتی کھڑا دعا مانگ رہا تھا ۔ حضرت عمر ؓ ان کے پیچھے خاموش کھڑے ہو گئے ۔ وہ اعرابی یہ دعا مانگ رہا تھا ، اے میرے رب ! یہ آپ کے حبیب ﷺ ہیں اور میں آپ کا بندہ (غلام ) ہوں اور شیطان آپ کا دشمن ہے۔اے میرے رب اگر آپ میری مغفرت کر دیں گے تو آپ کے حبیب ﷺ خو ش ہو جائیں گے اور آپ کا یہ بندہ کامیاب ہو جائے گا اور اگر آپ نے میری مغفرت نہ فرمائی تو آپ کے حبیبﷺ پریشان ہو جائیں گے ۔ دشمن خوش ہو جائے گا اور یہ بندہ ہلاک ہو جائے گا۔ آپ بہت کرم عزت و شرف والے اس بات سے بہت بلند و بالا ہیں کہ آپ اپنے حبیب ﷺکو پریشان ، اپنے دشمن کو خوش اور اپنے بندے کو ہلاک کریں۔ اے میرے اللہ شرفاء عرب کا دستور ہے کہ جب ان میں سے کسی سردار کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی قبر پر اس کے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا جاتا ہے اور یہ تو تمام جہانوں کے سردار کی قبر مبارک ہے۔ مجھے ان کی قبر مبارک پر جہنم کی آگ سے آزاد فرما۔ حضرت عمر ؓ نے بھی اونچی آواز سے کہا اے میرے رب! میں بھی یہی دعا کر تا ہوں جو اس اعرابی نے کی ہے اور اتنا روئے کہ داڑھی مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی۔ ماہ رمضان کی رحمتوں والی بابرکت گھڑیاں اگرچہ اس سال گزر گئی ہیں تاہم رب کی رحمت کے دروازے ہر انسان کیلئے اس کی زندگی کے آخری سانس تک کھلے ہیں اور رب کی رحمت پانے کیلئے رب حبیب کی مداح سرا بہترین ذریعہ ہے۔
ایمان، دعا اور نعت
May 23, 2021