اللہ کے خاص نیک بندوں کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے جیسے ولی،فقیر، درویش، صوفی، پیراور شیخ ۔ ان سب بزرگوں میں مجموعی طور پر کافی صفات ایک جیسی ہوتی ہے۔ عام لوگو ں کی دعائوں اور فقیر کی دعائوں میںبھی بے حد فرق ہوتا ہے ۔عام بندہ اپنے لیئے مانگتا ہے جبکہ فقیر سب کے لیئے۔ یہی وجہ ہے کہ عام بندوں کو دنیا بھول جاتی ہے لیکن اللہ کے نیک بندے اورخصوصاََ نیکوں میں بھی خاص بندے، ہر زمانے کے لیئے مثال ہوتے ہیں،امر ہوتے ہیں۔ فقیر اللہ سے اپنے دل میں ایسی حرارت کی طلب کرتا ہے جس سے اس کا سینہ اللہ کی یاد سے منور رہے ۔ وہ چا ہتا ہے کہ صحت و بیماری ، یعنی دونوں حالت میں اس کو عبادات اور ذکر و اذکار کالطف ملے ۔ وہ اللہ پر کامل یقین رکھتا ہے۔ وہ رسولِ کریمؐ سے پکی سچی محبت رکھتا ہے۔ وہ ملک کے حالات اوربے یقینی کی کیفیات میں اللہ تعالیٰ سے بے باک اور مخلص قیادت کے لیئے دعا کرتا ہے۔ وہ گلستانِ محمدی ؐ میں مولا علی ؓ کی شجاعت دیکھنا چاہتا ہے کہ جس سے کفر لرز اٹھے۔ وہ ایسی فراست کا طالب رہتا ہے جس کی بدولت وہ صرف اللہ کا کلام پڑھے اورصرف اسی کے آگے جھکے۔ بیماریوں اور وبائوں کے دنوں میں وہ بارشِ طہارت کی طلب کرتا ہے جس کے برسنے سے وبائوں اور بیماریوں کا خاتمہ ہو ۔ وہ دنیا پر اللہ کے حبیب ؐ کی امت کا راج دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسی امامت کا خواہاں رہتا ہے جس سے یہ راج قائم ہو ۔
فقیر عام بندوںکے ایمان کے لیئے وجہِ تازگی ہوتا ہے۔ وہ پرسکون رہتا ہے،فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا۔ مخلص ہوتا ہے ۔ سچا ہوتا ہے۔ درمند ہوتا ہے۔ دوسروں کو حوصلہ دیتا ہے۔دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ بے ترتیبی کا سخت مخالف ہوتا ہے ۔ نظم و ضبط کے خلاف چیزیں دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتا ہے۔ وہ ناانصافی ہوتی نہیں دیکھ سکتااور حق کا پیغام اوروں تک کسی نہ کسی صورت میں پہنچاتا رہتا ہے۔ وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے ۔ معاشرے میں گناہوں کے عروج کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے اوربڑے گناہ گاروں سے خودسے عاصی کی حفاظت کی طلب کرتا ہے۔ وہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اپنے حبیب ؐکے صدقے بے مثال اور مخلص خطیب عطا کرے جو ایسے جوشیلے مگر مدبرانہ خطاب کریں جنہیں سن کر اُمتِ مسلمہ میں شوقِ جہاد و شہادت پیدا ہو۔وہ چاہتا ہے کہ بس اللہ کے ذکر کی مستی میں فنا ہو جائے، حرص ِدنیا سے دور ہو جائے اور بس الحمد اللہ ہی پڑھتا رہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے شب و روزکی محفلیں اللہ اور کریم آقا ؐ کے مبارک ذکر کی رونق سے سجی رہیںاور یہ چراغاں یونہی جاری و ساری رہے۔ اس کی آنکھوں میں ملامت اور ندامت کے آنسوئوں کی جھڑی رواں رہتی ہے ۔ فقیر کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ جھکا ہوتا ہے، عاجز ہوتا ہے ، اس میں تکبر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اللہ اور اس کے حبیب ؐ سے محبت اورخوبصورت دعائوں کے بعد فقیر کو جو ملتا ہے،
وہ بھی پھر عجیب اور بے مثال ہوتا ہے۔ اس پر اللہ کی خاص عطا ہوتی ہے۔ حضورپاکؐ کی خاص نظرِ کرم ہوتی ہے۔ اس کو روحانیت ملتی ہے۔ فراست ملتی ہے۔ سمجھ ملتی ہے۔ رونق ملتی ہے۔ خوبصورت الفاظ، جملے اور خیالات ملتے ہیں۔ مسئلوں کا حل ملتا ہے۔ عزت ملتی ہیِِ مقام ملتا ہے ۔ نام ملتا ہے۔ دنیا اس کے ارد گرد اکٹھا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا وجود دوسروں کے لیئے بھی مفید اور باعث ِ برکت سمجھا جاتا ہے۔ فقیر دوسروں کے لیئے ایک رہنما ستارہ کی مانند ہوتا ہے۔بڑے عہدے، اقتدار، طاقت، دولت ، گاڑیاں ، بنگلے سب ختم ہو جاتے ہیں لیکن فقیر کی فقیر ی کو اللہ ہمیشہ آباد رکھتا ہے، فیض و روحانیت کی شکل میں…!
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی