حنیف عابد
اس کائنات پر انسان نے جب قدم رکھا تو اسے معلو م ہوا کہ زندگی بسر کرنے کے لیے اسے جد و جہد کرنا ہوگی ۔زندہ رہنے کی ضروریات کے حصول کے لیے انسان نے کئی طرح کے پیشے اختیار کیے ۔انسان کے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک پیشہ ماہی گیری کا ہے ۔ آج کے جدید دور میں انسان جن پیشوں سے وابستہ ہے ان کی اکثریت وقت کے ساتھ جنم لیتی رہی ہے ۔سمندر کی موجوں کے درمیان پانی سے اپنا رزق تلاش کرنے کی روایت بہت قدیم ہے ۔وقت کے ساتھ ماہی گیری کے طریقہ کار میں تبدیلیاں ضرور رونما ہوئی ہیں لیکن آج بھی یہ پیشہ قدیم و جدید طریقہ کار کے ملے جلے انداز کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ساحلی کناروں پر بسنے والے افرادزیادہ تر ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔یہ لوگ سمندر سے مچھلیاں پکڑ کرانہیں فروخت کرکے روزی روٹی کماتے ہیں۔پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ یہاں ایک طویل سمندری ساحل کی پٹی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ماہی گیری کا پیشہ آج بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ کراچی سے لے کر بلوچستان تک کے مضافاتی علاقے تک ساحلی پٹی پر ماہی گیروں کی اکثریت آبادہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نا ہوگا کہ کراچی کی تاریخ بھی اتنی پرانی ہے جتنا یہاں کا ساحل۔ایک زمانے میں کراچی دنیا میں مچھیروں کی بستی کے نام سے مشہور تھا۔ تقسیم سے
قبل اور تقسیم کے بعد کراچی کا ساحل ہمیشہ سے ہی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔کراچی کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے ماہی گیر یومیہ لاکھوں روپے کا کاروبار کرتے ہیں۔یہاں ہر نیا دن معاشی لحاظ سے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس معاشی مرکز سے روزانہ لاکھوں ٹن مچھلیاں بیرون ملک درآمد کرکے زر مبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔یہی ماہی گیر اندرون ملک میں مچھلی کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ساحلوں کے نزدیک بسنے والے مچھیرے ساحل سمندر کی موجوں میں موت سے مقابلہ کرکے مچھلیاں پکڑ کر
لاتے ہیں۔اپنی ان بیش بہا خدمات کے عوض ان ماہی گیروں کو جو معاضہ ملتا ہے وہ ان کی روز مرہ کی ضروریات پورے کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا ۔ ماہی گیر سمندر کی موجوں میں ایک دو دن سے لیکر اکثر اوقات مہینہ مہینہ بھر بھی گزارتے ہیں۔یہ مچھیرے اپنی روزی کمانے کے لیے کشتیوں پر بیٹھ کر سمندر میں جاتے ہیں جہاں وہ جال کے ذریعے مچھلی پکڑ کر ساحل پر لاتے ہیں ۔ساحلی علاقوں میں جہاں مچھلی کا کاروبار ہوتا ہے وہیں کشتیاں بنانے کا کام بھی ساحلی علاقوں میں ہی کیا جاتا ہے ۔کشتی اور ماہی گیری کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے ۔کچھ ماہی گیر اپنے آپ کو صرف مچھلی پکڑنے تک محدود رکھتے ہیں ،جبکہ ان ہی میں سے کچھ لوگ کشتیاں بنانے کا کام بھی کرتے ہیں ۔کراچی کے ساحلی علاقوں میں بننے والی کشتیاں جدید و قدیم طرز کا حسین مرقع ہوتی ہیں ۔ان کشتیوں پر بیٹھ کر ماہی گیر جب سمندر کے اندر جاتے ہیں تو عزم اور حوصلے کی انتہائوں پر ہوتے ہیں ۔شکار ملنے کی صورت میں ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے ۔شکار نہ ملنے کی صورت میں ان کے چہرے افسردگی کی تصویر بن جاتے ہیں ۔
پاکستان میںماہی گیروں کی اکثریت کو مول ہولڈرنے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ۔ مول ہولڈر دراصل ایک زمانے میں نیلامی ایجنٹ ہْوا کرتا تھا جو ایف سی ایس کی طرف سے مچھلیوں کی نیلامی کا کمیشن وصول کر کے سوسائٹی کو دیتا تھا، لیکن 1992 کے بعد باہر سے ’’مہتا‘‘ (غیر قانونی مول ہولڈر) آگئے۔ انھوں نے ماہی گیروں کو ڈیزل، برف اور راشن کے لیے قرض دیا۔ آج زیادہ تر ماہی گیر اْن کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں اور مہتاخود کشتیوں کے مالک بن گئے ہیں۔ اْن کی پکڑی مچھلیوں کا دام یہ مہتا خود طے کرتے ہیں۔ آج یہ فرعون بن چکے ہیں اور ماہی گیروں کی کمائی کا بڑا حصّہ کمیشن کی صورت میں ہڑپ کر رہے ہیں۔فش ہاربر پرمچھلی سے بھری کشتی کے لنگر انداز ہوتے ہی مول ہولڈر (گودی کا مالک) کسی شکرے کی طرح کشتی پر جھپٹتا ہے اور کشتی میں رکھی مچھلیاں اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ زیادہ تر لانچیں مول ہولڈروں کے قرضے تلے دبی ہوتی ہیں۔ یہ مول ہولڈر شکار کے ہر پھیرے پر لانچ میں راشن، برف، ڈیزل رکھواتے ہیں اور مچھلیوں کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم میں سے ان اخراجات کے پیسے کاٹ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ شکار کی گئی مچھلیوں پر ماہی گیروں سے کمیشن بھی وصول کیا جاتا ہے، جو تین سے دس فی صد بنتا ہے۔ نیلامی کے بعد فش ہاربر کے گیٹ پاس کی 5 فی صد فیس بھی ماہی گیروں کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ گویا ماہی گیروں کی محنت کا آدھے سے زیادہ حصّہ مول ہولڈر، کشتیوں کے مالکان اور مچھلیوں کے بیوپاری لے اْڑتے ہیں۔مول ہولڈر اور بیوپاری آپس میں مل کر مچھلیوں کی قیمت گرا دیتے ہیں، بدلے میں بیوپاری ، اْنھیں کمیشن دیتے ہیں۔ ماہی گیر سستے داموں اپنی مچھلیاں فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ساحلی علاقوں میں اس وقت تقریباً 40 ہزار کے قریب چھوٹی بڑی کشتیاں مچھلیاں پکڑ رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کشتیاں ایک دو روز کے لیے اور بعض ہفتوںکے لیے شکار کرنے سمندر کی موجوں سے لڑتی ہوئی دیکھی جاتی ہیں ۔سمندر میں رہ کر یہ شکار کر کے واپس آتے ہیں تو کامیابی کی صورت میں ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔ماہی گیری ایک سخت محنت طلب اور جان جوکھوں میں ڈالنے والا پیشہ ہے ۔ ماہی گیر جب سمندر میں جاتے ہیں تو اْنھیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پورے دن کی محنت کی پکڑی ہوئی مچھلیوں کے عوض بعض اوقات انہیں مناسب رقم میسر نہیں آتی ۔بیوپاری ان مچھلیوں کو بازار میں مہنگے داموں تو فروخت کرتے ہیں، مگر ماہی گیروں کو برائے نام ہی رقم دی جاتی ہے ۔ماہی گیری ایک طرح کی ہوائی روزی ہے جس میں روزانہ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ماہی گیر کراچی کے قدیم باشندے ہیں، لیکن آزادی کے بعد بھی ان کی بستیاں بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کراچی میں زیادہ تر ماہی گیر ابراہیم حیدری، بلدیہ ٹائون، مہاجر کیمپ، کیماڑی، شیریں جناح کالونی، مبارک ویلیج، ریڑھی گوٹھ، چشمہ گوٹھ اور عبداللہ گوٹھ کے علاوہ بابا، بھٹ، شمس پیر، صالح آباد اور منوڑا کے جزیروں میں رہتے ہیں۔ ان ماہی گیروں کو بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ اْن کی زندگیاں جیٹی اور سمندر کے دو پاٹوں کے بیچ پس
رہی ہیں۔ان کی داد رسی کرنے کے لیے کوئی بھی موئثر منصوبہ بندی آج تک نہیں کی گئی۔
کراچی کا ساحل مبارک ولیج سے شروع ہوکر پورٹ قاسم کے قریب ختم ہوتا ہے ۔یہ ساحل 129کلومیٹر طویل ہے ۔ساحل پر دوس وکے قریب ماہی گیروں کی بستیاں آباد ہیں ۔ان بستیوں میں رہنے والے لاکھوں ماہی گیر سمندر سے ماہی گیری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔ہر سال جون ،جولائی میں مچھلیوں کی افزایش نسل کا سیزن ہونے کی وجہ سے سمندر میں مچھلیوں کے شکار پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اس دوران شہر میں رہنے والے ماہی گیر چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنے بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ جزیروں میں آباد ماہی گیروں کے پاس آمدنی کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ ان کے یہ دو ماہ بے کاری کی نذر ہو جاتے ہیں اور آخری دنوں میں نوبت فاقوں اور قرضوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بے کاری کے ان دنوں میں زیادہ تر ماہی گیر کشتی اور جال کی مرمت کرتے اور ساحلوں پر بے کار بیٹھے نظر آتے ہیں۔سندھ کے ساحلی پٹی پر ایک طرف حکومت نے اپنے کاغذات میں اربوں روپے ماہی گیروں کی بھلائی پر خرچ ہوتے دکھا دیے، ان کے لیے ماڈل ولیج، کشتیاں، جال، اسپتال، اسکول سمیت لا تعداد اسکیمیں موجود ہیں لیکن عملاََ ایک بھی چیز نظر نہیں آتی،
یہی حال ماہی گیروں کے نام پر کاروبار کرنے والی بعض این جی اوزکا بھی ہے جنھوں نے عالمی اداروں سے فنڈز لے کر عالیشان دفاتر، مہنگی گاڑیاں اندرون و بیرون ملک دوروں اور مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کر کے خود کے لیے عیاشی کا تو سامان پیدا کیا لیکن ماہی گیر آج بھی بنیادی سہولیات اور حقوق سے محروم ہیں۔
ماہی گیر کشتی سازی کے فن کوبھی زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی صدیوں سے کشتی سازی کے مراکز ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہاں فائبر گلاس سے تیار کردہ انجن والی چھوٹی کشتیوں کے متعارف ہونے کے بعد خیال ہے کہ روایتی کشتی سازی کا قدیم فن رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ ہر کشتی پر 35 لاکھ سے 40 لاکھ تک کی لاگت آتی ہے۔ سندھ کی ساحلی پٹی میں کشتی سازی کے مراکز کراچی اور اس سے ملحق مچھیروں کی قدیم بستیاں ہیں، جن میں مبارک ولیج، ہاکس بے، پیراڈائز، ابراہیم حیدری قابلِ ذکر ہیں۔ بلوچستان کا بڑامرکز گوادرہے۔ پسنی، جیوانی، ڈام ، بھیڑہ اور سونمیانی میں بھی نسبتاً چھوٹے پیمانے پر روایتی کشتیاں بنائی جاتی ہیں۔سندھ کے ساحلی مچھیرے چھوٹی کشیوں کو ہوڑا کہتے ہیں۔ پانچ، چھ فٹ لمبی ہوڑا سے لے کرچالیس فٹ طویل لانچ بالعمو م تیار ہوتی ہیں۔کشتی میں کیکر، برما ٹِیک، پین اور شیشم کی لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ ایک کشتی یا لانچ کی عمر بالعموم دس برس تصور کی جاتی ہے، تاہم کشتی سازوں کے مطابق برما ٹِیک سے تیار کی جانے والی کشتی زیادہ پائیدار، مگر لاگت کے اعتبار سے بہت مہنگی ہوتی ہے۔ ہوڑا ہو یا لانچ سب کی تیاری ایک ہی طرح سے شروع ہوتی ہے۔کشتی سازی کا سب سے پہلا مرحلہ ’پتھان، جمانے کا ہوتا ہے۔ یہ کشتی کا پینداہوتا ہے۔ پتھان کے اگلے سِرے پر ’مہرہ، اور ’تیر، نصب کیا جاتا ہے۔ تیر، کشتی کے آگے نصب مضبوط ترین لکڑی کا خم دار شہتیر ہوتا ہے۔ عقب میں پتھان کے آخر اور سب سے نِچلے سرے پر سکھان نصب کرتے ہیں، جس پر رخ موڑنے والا غیر ساکن تختہ نصب کیا جاتا ہے۔ یہ دائیں بائیں حرکت کرسکتا ہے۔ پتھان، مہرے اور تیر کو جوڑنے کے بعد کشتی کے دونوں سِروں پر ’لے،جوڑی جاتی ہے۔ کشتی ساز اس خم دار ’لے، کو کشتی کی ’پسلیاں، کہتے ہیں۔ جس سے کشتی کی شکل اور حجم ابھرتا ہے۔ اگر لانچ ہے تو چھپرے، عملے کے کیبن اور سرد خانے کی تیاری شروع کی جاتی ہے۔آخر میں انجن کی تنصیب، وائرنگ اور ریڈیو آلات نصب کیے جاتے ہیں۔ آخر میں پالش ہوتی ہے، پھر شوخ رنگوں سے ان پر بیل بوٹے بناتے ہیں۔روایتی کشتی سازی مکمل طور پر روایتی ہْنر اور ذہنی صلاحیتوں کا اعلیٰ نمونہ ہے۔بلوچستان کی نسبت سندھ میں روایتی کشی سازی عام ہے۔ مقامی باشندے اس فن پر اپنا حقِ ملکیت شدت سے جتلاتے ہیں۔ اس میں تبدیلی انہیں گوارا نہیں، البتہ بلوچستان میں لکڑی سے بنی روایتی کشتیوں کا استعمال بتدریج کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔سندھ کے ساحلی علاقوں میں اب بھی لکڑی سے بنی روایتی کشتیاں ہی استعمال ہورہی ہیں۔