خاک میں کیا صورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہو گیٔں

المیہ یہ بھی ہے کہ سفارش اور اقرباء پروری کے کلچر نے ادب اور فنون لطیفہ کوبھی نہیںبخشا۔ہر طرف چند مخصوص ادیب ،شاعراور فنکارچھائے ہوئے ہیں۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتاہے کہ ملک عزیز میں یہی چنداحباب باقی ہیں۔ایسا نہیںہے اس دھرتی نے بڑے بڑے صاحبان علم و فضل ،ادیب اور شاعرپیدا کیے جنہوںنے اپنی زندگیاں اور وسائل فروغ ادب کے لیے وقف کر دیے۔معاشرہ کی بے رخی اور ماحول موافق نہ ہونے کی وجہ سے گمنام رہے۔اب بھی دھرتی پر ایسے ہیرو موجود ہیں۔ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے والے ادارے توجہ فرمائیںبڑے شہروں سے نکل کرچھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں سے ہیرے موتی تلاش کریں۔سرکاری کانفرنسوں کے منتظمین بھی چناؤکے معیارمیںتھوڑی لچک پیدا کریں اور دیگر احباب کو بھی موقع فراہم کریں۔اس موضوع کے حوالے سے ٹی ایس ایلیٹ کا مشورہ بھی بر محل ہے کہ’’ نقاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ گمنام شاعروں کے کلام کا بھی جائزہ لے اورانہیں منظر عام پر لائے اس طرح بہت سے ہیرے جو دنیا کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیںلوگوں کی نظر کے سامنے آجاتے ہیں‘‘۔
پنجابی زبان وادب کے ایک گمنام قادرالکلام شاعرقاضی محمد امین ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادن خان میں کوہستان نمک میں آباد ایک بستی گولپورمیں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک بڑے دینی،روحانی،علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ یہ خانوادہ پشت ہا پشت سے مذہبی قیادت پر سرفراز چلا آرہا ہے۔ابتدائی تعلیم و تربیت والد گرامی حکیم قاضی نور حسین سے حاصل کی جو ایک معروف عالم دین اور بلند پایہ حکیم تھے۔قاضی صاحب کو بچپن سے ہی ادب سے بڑا لگاؤ تھا۔پنجابی کے علاوہ اردو، عربی اور فارسی زبان پر عبور حاصل تھا۔مطالعہ کتب کا شوق ورثہ میں ملا۔نادر و نایاب کتب پر مشتمل وسیع لائبریری بنائی۔والدہ صاحبہ اور راقم السطور کو اس لائبریری سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔آپ نے گورنمنٹ پرائمری سکول گولپور میں زندگی آخری سانس تک علم کی شمع جلائے رکھی۔آپ بڑے شفیق مدرس تھے۔طلباء سے شفقت اور محبت کمال درجہ پر تھی۔سکول میں تدریس کے ساتھ طلباء کو تختی لکھنے کے لیے قلمیں بھی تیار کر کے دیتے۔اس مقصد کے لیے ایک تیز دھار چاقو ہر وقت آپ کے پاس موجود ہوتا تھا۔آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔علم و حکمت کے ساتھ اللہ پاک نے اچھی صحت عطا فرمائی۔ یوں آپ پہلوان سخن بھی تھے اور پہلوان جسم بھی۔آپ کے اکھاڑہ میںلکڑی اور پتھر سے تیار کیا گیا سامان پہلوانی اور ویٹ لفٹنگ ہر وقت تیار رہتا۔ بنیادی طور پر تنہائی پسند تھے   اس لیے آبادی سے دور ’’ دارلفکر‘‘ بنایا۔ اس الگ تھلگ ماحول میں مطالعہ، غوروفکر، عبادت اور ورزش میں مصروف رہتے۔ آپ ماہر امراض ہڈی وجوڑ بھی تھے۔اس علم میں آپ کے استادحکیم خدابخش ڈار جلالپوری تھے۔ استاد محترم کی تربیت،فیض اور روحانی تاثیر تھی کہ پیچیدہ سے پیچیدہ فریکچرز کے مریض بھی شفا ء پا جاتے۔اس عمل شفا کے پیچھے آپ کا خلوص بھی شامل تھا۔علاج بلا معاوضہ کرتے یہاں تک کہ مریض کے گھر سے پانی تک نہ پیتے۔آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ’’انوار المخلصین‘‘ ہے۔یہ بزبان پنجابی سورۃ یوسف کی منظوم تفسیر ہے۔فنی لحاظ سے یہ مثنوی پنجابی ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے جس کے پڑھنے سے ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔قاضی صاحب نے اس مثنوی کو طویل اور مترنم بحر میں قلمبند کیا ۔ یہ ادبی شاہکار تمام تر فنی خوبیوں کے ساتھ پند و حکمت کے ہزاروں پہلو سمیٹے ہوئے ہے۔عام فہم اور سادہ زبان میںتحقیقی اور علمی نکات بیان کیے گئے ہیں۔فرماتے ہیں
مدت بعد خواہش پوری ہوئی میری،
لکھی گل میں خاص قرآن دی اے
قصہ لکھیا عین ثواب کارن،
اتھے جا نہ فخر گمان دی  اے
گلاں حق دیاں اس کتاب اندر، 
پڑھیاں اس ثواب دلوانا جے
دین دنیا دا فائدہ اس اندر،
سخن سچ امین بخشاوناجے
’’ انوارالمخلصین ‘‘ کا دیباچہ خانقاہ چورہ شریف کی معروف دینی ، روحانی، اور علمی شخصیت حضرت حافظ ظہور علی شاہ نے تحریر فرمایا۔نامور ماہر تعلیم اور اس دور میں گورنمنٹ کالج چکوال کے پروفیسر جناب انور بیگ اعوان کا علمی تبصرہ پڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔انور بیگ صاحب فرماتے ہیں کہ امین صاحب کی شاعری ایک جامع الصفات شاعری ہے۔اس میںعبدالحکیم کا سا فارسی کا زور،فضل شاہ کی سی الفاظ کی کاریگری، عبدالستار کا سا زندگی کامشاہدہ،حافظ برخوردارکا سا سوزاور تڑپ،مولوی غلام رسول عالمپوری کی سی روانی، صدیق لالی کا سا اختصار،احمد یار کی سی علمیت اورمیاں بخش کا تصوف پایاجاتاہے۔ صدافسوس! ابھی تک یہ عظیم تخلیق زیور طباعت سے آراستہ نہ ہوسکی۔

ای پیپر دی نیشن