اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 1973ء میں بنایا گیا دستور اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ ریاست کے تمام شہری مساوی حقوق رکھتے ہیں اور وہ سب قانون کی نظر میں یکساں ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دستور کی طرف سے فراہم کی گئی اس ضمانت کا عملی زندگی میں اطلاق ملک کے کسی بھی حصے میں دکھائی نہیں دیتا۔ عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ یہاں امیر طبقے کے لیے حقوق اور قوانین الگ ہیں اور غریبوں کے لیے الگ۔ یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس نے ملک کے طول و عرض میں بسنے والے عوام کے دلوں میں اداروں سے متعلق عدم اعتماد پیدا کیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عدم اعتماد مزید بڑھتا جارہا ہے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ امیر اور غریب کی خلیج واضح تر ہوتی جارہی ہے۔ کسی بھی ملک اور معاشرے میں ایسی تقسیم و تفریق کے مسلسل بڑھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بالآخر وہ ریاست خانہ جنگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ ریاست کے تمام اداروں کے لمحۂ فکریہ ہے۔
اس تقسیم و تفریق سے جڑا ہوا ایک تازہ واقعہ ہفتے کو اسلام آباد میں پیش آیا جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا گیا اور پھر اگلے چند گھنٹوں میں وہ رہا بھی ہوگئیں۔ شیریں مزاری کو جس مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا وہ ضلع راجن پور میں ہزاروں کنال اراضی پر مبینہ قبضہ کر کے اسے اپنے نام کرنے سے متعلق ہے۔ یہ معاملہ تقریباً نصف صدی پرانا ہے اور اس کا مقدمہ انسدادِ بد عنوانی یا اینٹی کرپشن کے محکمہ مال میں درج کیا گیا۔ ہفتے کی دوپہر محکمہ انسدادِ بد عنوانی کی ٹیم نے اسلام آباد پہنچ کر تھانہ کہسار کی حدود میں واقع سیکٹر ای سیون میں شیریں مزاری کے گھر کے باہر سے انھیں گرفتار کیا۔ گرفتاری کی اطلاع ملنے پر پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری، شبلی فرار، زلفی بخاری سمیت دیگر افراد تھانہ کوہسار پہنچ گئے جہاں پولیس افسران نے انھیں بتایا کہ یہ کارروائی محکمہ انسدادِ بد عنوانی نے کی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی کال پر اس جماعت کے کارکنان نے تھانے کے باہر احتجاج بھی کیا۔ اسی نوعیت کے احتجاجی مظاہرے لاہور سمیت کئی شہروں میں کیے گئے۔
واقعے کی اطلاع ملنے پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری بطور خاتون قابل احترام ہیں۔ کسی بھی خاتون کی گرفتاری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس صورتحال میں محکمہ انسدادِ بد عنوانی کے ڈائریکٹر جنرل نے بھی شیریں مزاری کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا، لہٰذا شیریں مزاری کو لے جانے والی ٹیم کو ڈیرہ غازی خان کے راستے سے ہی واپس بلا لیا گیا۔ محکمے کے حکام کہتے ہیں کہ شیریں مزاری سے قانون کے مطابق تحقیقات کی جائیں گی۔ متعدد بار شیریں مزاری کو جواب کے لیے بلایا لیکن پیش نہیں ہوئیں۔ شیریں مزاری کو قانون کے مطابق گرفتار کیا شیریں مزاری پر جو الزامات ہیں انہیں جواب ہر صورت دینا ہوگا۔ شیریں مزاری کی گرفتاری کی سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے مذمت کی۔ ادھر، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی رات ساڑھے گیارہ بجے شیریں مزاری کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت دی کہ معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرائے اور اس حوالے سے تمام تفصیلات (ٹی او آرز) بھی عدالت میں جمع کرائے۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کو عورت کی عزت اور معاشرتی اقدار کا خیال ہے لیکن ایک عام پاکستانی یہ جاننے کا حق رکھتا ہے کہ صرف ایلیٹ کلاس کی عورت ہی کیوں قابلِ عزت سمجھی جائے اور معاشرتی اقدار کی دُہائی صرف اسی وقت کیوں دی جائے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے امیر طبقے سے جڑے ہوئے کسی شخص کے خلاف کارروائی کریں؟ کیا ملکی آئین، جس کے تحت اس ملک کی حکومت اور تمام ادارے کام کرتے ہیں، ایسی کسی تفریق و تمیز کو قبول کرتا ہے یا ایک خاص طبقے نے خود ہی اپنے لیے یہ سہولت پیدا کر لی ہے؟ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار عام شہریوں کے ساتھ بلا تمیزِ رنگ و نسل و مذہب و صنف کیا سلوک کرتے ہیں اور ان کی داد رسی تو دور کی بات ہے کبھی کسی سیاسی رہنما یا عدالت نے یہ جاننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ یہ سلوک کس قاعدے، ضابطے یا قانون کے تحت روا رکھا گیا۔
کسی بھی ریاست کے وجود کے استحکام کی ضمانت قانون کی حکمرانی مہیا کرتی ہے اور جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں انتشار اور خانہ جنگی معاشرے اور ریاست دونوں کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ ہماری حکومت اور اداروں کو اس نکتے پر بہت سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشرے میں جس تیزی سے امیر اور غریب کی تقسیم و تمیز واضح ہورہی ہے وہ ریاست کی ناکامی کی دلیل ہے جس کا نتیجہ کسی بھی طور مثبت نہیں ہوگا۔ شیریں مزاری یا ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی اور شخص کے لیے عدالت کا رات گئے کھلنا بھی ایک ایسا عمل ہے جس سے عوام کے اس نظام اور اداروں میں اعتماد میں اضافہ ہرگز نہیں ہوگا۔ حکومت اور اداروں کو اس واقعے کے تناظر میں کئی اہم اور تلخ سوالات پر غور کرنے اور ان کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دوہرے معیارات کے تحت چلنے والے معاشرے اور ملک کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکتے۔