رواںبرس اپریل کا مہینہ گزشتہ 61 برس کا گرم ترین مہینہ تھا۔ مئی کے مہینے کے حالات بھی مختلف نہیں ۔ اس برس ہم سردی سے سیدھا شدید گرمی کی لپیٹ میں آ گئے۔ موسم بہار کہیں کھو گیا۔ موسم کی یہ شدت جہاں پانی کی طلب بڑھاتی ہے وہاں خود بخود دستیاب قدرتی پانی بھی کم ہو جاتا ہے۔ انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 1980 ء کی دہائی تک پاکستان میں پانی مناسب مقدار میں موجود تھا۔ سن 2000 ء تک پاکستان میں پانی کی کمی کے اثرات نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے اور اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو 2035ء تک پاکستان پانی کی شدید کمی کے شکار ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق انکا تخمینہ تھا کہ رواں برس پاکستان میں پانی کی کمی 22 فیصد ہو گی لیکن یہ بڑھ کر38فیصد تک ہو گئی ہے۔ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق رواں برس پاکستان میں پانی کی کمی 52فیصد تک ہے۔ موسمیاتی تغیرات اور پانی کی شدید کمی کا مطلب ہے کہ خوراک کی پیداوار میں شدید کمی اور قحط کا خطرہ۔ دنیا بھر کے قابل اعتماد ادارے کئی برس سے ہماری توجہ اس جانب دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن نہ تو پہلے کسی کے کان پر جوں رینگی اور نہ اس برس ابھی تک موسم کی شدت اور پانی کی شدید کمی کے باوجود ہمارے اداروں اور سیاستدانوں نے اس جانب سنجیدہ توجہ کی ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے، پچھلی حکومتوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے یا اس سب کو بھارتی سازش قرار دینے سے نہ تو گزشتہ پچاس برس سے اس مسئلے کے حل میںکوئی مدد ملی ہے نہ آنے والے سو برسوں میں ملے گی۔ اور کڑوی سچائی یہ ہے کہ اگر ہماری روش یہی رہی ، تو ہمارے آنے والے وقت میں پچاس برس ہوں گے ہی نہیں(خدانخواستہ)۔
اس وقت ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لیے صرف تین بڑے ڈیم ہیں۔ منگلا 1967، تربیلا 1978 ء اور چشمہ 1971 میں مکمل ہوا۔ 1960 ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے وقت پاکستان کے دریائوں میں117 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا تھا اور اب ہمارے دریائوں میں 80 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے اور اس میں سے بھی زیادہ تر ہم ضائع کر دیتے ہیں۔دنیا کے اکثر ممالک اپنے دریائوں میں آنے والے پانی کا چالیس فیصد تک ذخیرہ کر لیتے ہیں جبکہ پاکستان اپنے دریائوں میں آنے والے پانی کا نو تا دس فیصد ذخیرہ کرتا ہے ۔ مختلف قدرتی ذرائع سے ہر برس پاکستان میں 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے ہم صرف 13.4 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال یا ذخیرہ کرتے ہیں باقی تمام پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ بھارت جو ڈیم بنا رہا ہے ان میں سے بہت سے بلاشبہ غیر قانونی ہیں ، لیکن ایک تلخ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا بھارت نے ہمارے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں کہ ہم ڈیم نہ بنائیں؟ یہ ہماری ذمہ داری تھی ، اور ہے کہ ہم اپنی موجودہ اور مستقبل کی ضرورت کے مطابق ڈیم بنائیں۔ پنجاب میں پانی کی ضرورت ساٹھ ہزار کیوسک اور سپلائی انتیس ہزار کیوسک ہے، سندھ میں ضرورت پینتالیس اور سپلائی 22 ہزار کیوسک ہے۔ اتنے کم پانی کے ساتھ ملک کی ضروریات کے مطابق گندم کی پیداوار نا ممکن ہو گی۔اقوام متحدہ اور ’’ ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی رپوٹوں کے مطابق 2025ء میں پاکستان میں فی کس 500 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہو گا جبکہ قحط اور بھوک کے لیے مشہور ملک ’’ صومالیہ‘‘ میں بھی فی کس 1500کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ایسے ممالک کی فہرست، جن میں مستقبل قریب میں پانی کا شدیبحران پیدا ہو سکتا ہے میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کا ترقیاتی ادارہ ہو یا ’’پاکستان کائونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘‘، سب کئی دہائیوں سے ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں پاکستان پانی کی شدید کمی کا شکار ہو جائے گا۔ مگر نہ تو کسی حکومت پر آج تک کوئی اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہمارے عوام اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھ رہے ہیں۔ پانی کے ذخیرہ کرنے کی کافی صلاحیت نہ ہونے کے علاوہ جو عوامل صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہے ہیں ان میں پانی کے استعمال کے بارے میں انتظامی مسائل، آبادی میں ہوشربا اضافہ ، آبادی کا شہروں کی جانب منتقل ہونا اور عوام میں پانی ضائع کرنے کی عادت اہم ہیں۔ حکومت، بلکہ موجودہ حالات میں ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس اہم ترین مسئلہ کے حل کے لیے جنگی بنیادوں پر فوری عملی اقدامات کا آغاز کرے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے متعلقہ ادارے اور سیاستدان اس حقیقت کو قبول کر کے اسکے حل کے لیے ذاتی سیاسی مفادات سے ہٹ کر سنجیدہ کوشش اور عملی اقدامات کریں۔ خطرہ جہاں تک آ گیا ہے، اب یہ صرف حکومت نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں اور پارٹیوںکا مشترکہ فرض ہے کیونکہ یہ زندگی موت، اور ریاست پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ سب کرے گا کون؟ ہماری ریاست اور ادارے جانے کہاں ہیں اور سیاستدانوں کو کرسی کی لڑائی سے فرصت ملے گی تو ان کا دھیان اس جانب ہو گا۔ انکی واحد ترجیح شاید اقتدار ہے پاکستان کی بقا اور عوام کی زندگی نہیں۔
گلوبل وارمنگ، پانی اور پاکستان
May 23, 2022