عنبرین فاطمہ
’’نیلو فر شاہد‘‘ کا شمار ایسے فیشن ڈیزائنرز میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے کام کے زریعے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان کروائی ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں فرانس نے انہیں ہائی سویلین ایوارڈ سے نوازاز۔نیلوفرشاہد تخلیقی کام کرنے پر یقین رکھتی ہیں ،ان کا اپنا ایک انداز ہے اور وہ انداز دوسروں سے اتنا مختلف ہے کہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں جوڑا نیلوفرشاہد کا تیار کردہ ہے۔ہماری نامور ہیروئینز ان کے تیار کردہ ملبوسات زیب تن کرتی ہیں اداکارہ سارا خان نے اپنی شادی کے بعد جو پہلا انٹرویو دیا اس میں انہوں نے بتایا کہ ان کو مہندی اور بارات کے دن تک معلوم نہیں تھا کہ وہ کیسا جوڑا پہن رہی ہیںکیونکہ انہوں نے نیلوفرشاہد پر چھوڑ رکھا تھا کہ وہ ان کے لئے جوڑا اپنی مرضی سے تیار کریں یعنی نیلوفر شاہد کے کا م پردلہنیںبھی آنکھیں بند کر کے یقین کر تی ہیں ۔’’نوائے وقت‘‘ نے ’’نیلوفر شاہد‘‘ سے گزشتہ دنوں خصوصی انٹرویو کیا اس میں انہوں نے کچھ یوں باتیں کیں ۔نیلوفر شاہد نے کہا کہ میں نے توکام کے حوالے سے ایک جنگ لڑی ہے کیونکہ کام میرا جنون تھا اور میں دنیا کو پاکستان کا کلچر دکھانا چاہتی تھی اور میں نے دکھایا اور یہی میری فلاسفی اور میسج آج تک ہے کہ پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے رکھا جائے ہمارے کام کے زریعے ہمارے کلچر کی خوبصورتیاں دنیا کو نظر آنی چاہیںلیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج میں جب اردگرد کام ہوتا دیکھ رہی ہوتی ہوں تو کمرشل ازم زیادہ نظر آتا ہے،میرے حساب سے آ ج نوے فیصد کام کمرشل ہو رہا ہے ،جدت لانے اور ایسا کام کرنے کی اشدضرورت ہے جس پر پاکستان کی چھاپ ہو۔کسی بھی ڈیزائنر کی چھاپ اس کے تیار کردہ جوڑے میں نظر آنی چاہیے جیسا کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ کے تیار کردہ کپڑوں کا دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے، آپ کے کپڑوں میں ایک کہانی ہوتی ہے ۔میرے لئے فیشن ڈیزائنگ پیسز آف آرٹ ہے اب جیسے میں لگژری پریٹ اگر کررہی ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ مارکیٹ میں ہونے والے کام سے کچھ مختلف کروں ۔میں اس حق میں ہوں کہ دنیا کے فیشن کو دیکھا جانا چاہیے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے ہالی وڈ بالی وڈ ضرور دیکھیں لیکن اپنی انفرادیت اور سگنیچر کو لیکر چلیں، مجھے آج اس چیز کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے ۔ایک دوسرے کے کام کو کاپی کر لینا فیشن ڈیزائننگ نہیں ہے ۔ایک سوال کے جواب میں نیلوفر شاہد نے کہا کہ ڈیزائنر کی بھی بہت ساری ذمہ داریاں ہوتی ہیں لیکن اس کام کو اب بالکل ہی کمرشل کر دیا گیا ہے ۔میں پاکستان انسٹی آف فیشن اینڈ ڈیزائن میں طالب علموں کو جب لیکچر دیتی ہوں ورکشاپس یا سیمینار میں جاتی ہوں تو کہتی ہوں کہ آپ اگر ایک ٹی شرٹ بھی بنائیں اس پہ پاکستان کا سٹیمپ ہونا چاہیے۔نیلو فرشاہد نے مزید کہا کہ فیشن اور ڈیزائنر الگ چیزیں نہیں ہیں دونوں ہی ایک ہیں ،ڈیزائنرز کے بارے میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ یہ جو بھی کریں گے وہ تخلیقی ہو گا اس لئے فیشن ڈیزائنر کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ جو بھی کریں اس میںانکی خود کی ایفرٹ اور تخلیق نظر آنی چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں نیلوفر شاہد نے کہا کہ ویسے تو فیشن ایک پرسنل سی چیز ہے چونکہ لوگوں کے پاس ڈیزائننگ کا کوئی اتنا وژن نہیں ہوتا لہذا اگر کسی ڈیزائنر نے کوئی چیز بنائی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہی فیشن ہے اس لئے ڈیزائنرز پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دیکھے کہ وہ لوگوں کو کس سمت میں لیکر جا رہے ہیں نوجوان نسل کو کیا بتا رہے ہیں کہ فیشن کیا ہے۔میں تو یہ بھی کہتی ہوں کہ فیشن ایک لینگوئج ہے اور ہمارے ملک میں تو فیشن شوز کو اینٹرٹینمنٹ کی حد تک سمجھا جاتا ہے ،ہونا یہ چاہیے کہ فیشن شوز میں بائیرز کو بلایا جانا چاہیے ٹارگٹ مارکیٹ کو ہٹ کیا جانا چاہیے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا ۔ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چند ایشیائی ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں غرارے نہیں پہنے جاتے لہذا جہاں بھی فیشن شو کرنے جائیں وہاں کی مارکیٹ کو پہلے اچھی طرح سے سٹڈی کریں اور اس حساب سے اپنی تیار کردہ پراڈکٹ کو پیش کریں لیکن وہی بات کہ پاکستان کی پہچان اس کے کلچر کی شناخت نہیں کھونی چاہیے۔نیلوفر شاہد نے کہا کہ فیشن انڈسٹری کو حکومت کی سرپرستی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ انسان کو سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے میری تو ہمیشہ سے یہی التجاء رہی ہے کہ اس انڈسٹر ی کو سیریس لیں ہم اس پلیٹ فارم سے ملک کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں،ہمارے ہاں ایک سے بڑھ کرایک فیشن ڈیزائنرز بیٹھے ہیں جو اس کام میں مہارت رکھتے ہیں ان کی خدمات لی جانی چاہیں۔ہمارا ٹیکسٹائل بہت خوبصورت ہے اس پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ہمارے کھیس،لونگیاں اور ایمبرائیڈری ختم ہو رہی ہے ایسی چیزوں پر توجہ دئیے جانے کی ضرورت ہے۔نیلوفر شاہد نے کہا کہ میں نے جب کام شروع کیا تھا اس وقت تو لوگ جانتے بھی نہیں تھے کہ فیشن ڈیزائننگ کیا ہوتی ہے اور فیشن ڈیزائنر کیا ہوتا ہے،لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا کہ فیشن ڈیزائننگ کہتے کسے ہیں فیشن ڈیزائنرز کا اصل میں کام کیا ہے، سمجھ لیں کہ مجھے ایک جنگ لڑنی پڑی ۔میں نے پاکستان کے کلچر کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کا عزم کیا ،اپنے خطے کے مغل آرٹ پر کام کیا ،عمر خیال ،رومی اور اقبال ،خلیل جبران کی رباعیات،چغتائی کی پینٹنگز جو کہ علامہ اقبال سے متاثر ہیں ان پہ کام کیا اسلامی کیلی گرافی پہ کام کیا ۔میں نے ہمیشہ بچوں کو یہی بتایا ہے کہ کامیابی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا ہے بس محنت کرنی پڑتی ہے ،اپنے کیرئیر میں مجھے بھی مایوسیوں کا سامنا ہوا لیکن میں نے ان مایوسیوں کو سر پہ سوار نہیں ہونے دیا کیونکہ جب انسان مایوسیوں کو سر پہ سوار کر لیتا ہے تو اس کی کام کرنے کی صلاحیت پر ضرب لگتی ہے میں چونکہ بنیادی طور پر ایک فائٹر ہوں اس لئے کبھی مایوس نہیں ہوتی۔ اس لئے اگر آپ نے کوئی کام شروع کیا ہے تو اس میں اگر کہیں نقصان ہو رہا ہے یا ویسا نہیں چل رہا جیسا آپ چاہ رہے ہیں تو لائن بدلنے یا ہار مان کر بیٹھنے کی بجائے مستقل مزاجی کے ساتھ لگے رہیں ایک نہ ایک دن کامیابی ضرور آپ کے قدم چومتی ہے۔االلہ نے مجھے وہ سب کچھ دیا جس کی شاید میں نے توقع بھی نہیں کی تھی میرا تو ایمان ہے کہ اگر محنت کرتے رہیں تو اللہ کامیابیوں کے دروازے کھولتا ہے۔