ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کا درست فیصلہ

انتظار سحر …جاوید انتظار
pytislamabad@gmail.com 
انسان کے کچھ بلکہ  بیشتر فیصلوں میں اکثر ایک لمحہ انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔یہ   وضاحتی لمحہ ہر  اچھے اور برے زاویوں سے   انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔کوئی انسان اس وضاحتی لمحے میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں درست فیصلہ کر کے شخصیت بن جاتا ہے۔جبکہ کوئی سطحی ذہنیت کا انسان سوچ کر بھی غلط فیصلہ کرتا ہے۔ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہونے والا انسان وضاحتی لمحہ میں حق کا ساتھ اور قربانی دینے سے دریخ نہیں کرتا۔دوسرا ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہونے سے ڈرنے اور حالت کے قدموں میں گرنے والا آنکھیں بند کر کے فیصلہ کرتا ہے۔کبوتر بھی بلی کو دیکھکر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔اور یہ سمجھتا ہے کہ بلی نے بھی آنکھیں بند کر لی ہیں۔لہذہ وہ مجھ پر نہیں جھپٹے گی۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ میں اکثر اپنی تقریروں اور تحریروں میں کہتا لکھتا رہتا ہوں کہ سوچ دنیا کے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کی بنیاد ہوتی ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان خود ہے۔پاکستان بھی بننے سے پہلے صرف ایک سوچ تھا۔جب بر صغیر کے لوگوں میں  علیحدہ ملک بنانے کی سوچ پیدا ہوئی۔سوچ سے تحریک نے جنم لیا۔تحریک کو باصلاحیت، ولولہ انگیز اور انقلابی لیڈر شپ ملی تو دنیا کا نقشہ بدل گیا۔دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان آگیا۔پھر کیا ہو؟ اس پر ایک شعر یاد آگیا۔
یہ  زخم  ہمارا  اپنا ہے  یہ  درد  متاع عام نہیں 
اس زخم کی کوئی شکل نہیں اس درد کا کوئی نام نہیں
آزادی کے بعد ملک پر جاگیر سرمایہ دار طبقات اور طالع آزماووں نے اپنے پنجے گاڑ لئے۔سنگھاسن اقتدار پر براجماں ہو گئے۔نوے فیصد اکثریتی غریب و متوسط طبقے کو پیسے اور اختیار کی کرشمہ سازی سے انتخابی سیاست سے دور کر دیا۔یہ وہی طبقہ ہے جو ہر پارٹی اور لیڈر کو بناتا ہے۔لیکن افسوس صد افسوس سیاسی جماعتوں میں جمہوریت اور احتساب کی عدم دستیابی نے ملک کی حقیقی لیڈر شپ کا سر عام قتل کیا۔جس کی وجہ آج بھی ملک میں لیڈرشپ کا فقدان ہے۔پھر بھی ریاست اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے  اس غالب اکثریتی طبقے نے ہر ممکن قربانی دی۔قربانی رائیگاں جا رہی ہے۔ریاست ،ملک و قوم کو کبھی اقتدار کی طوالت کبھی حصول اقتدار کے لئے بیرونی دنیا کا معاشی قیدی بنا دیا گیا۔نہ ختم ہونے والی معاشی قید ناسور بن چکی ہے۔غربت،مہنگائی ،کرپشن اور نا انصافی کا اڑدھا قوم کے اخلاق و کردار کو نگل رہا۔عام آدمی کا معیار زندگی دن بدن گر رہا ہے۔مہنگائی سے نفسیاتی امراض بڑھ رہے ہیں۔کرپشن کے دام بڑھ چکے ہیں۔بے حیائی دندانتی پھر رہی ہے۔قوم اچھے اور برے میں تمیز کھوتی جارہی ہے۔تنگ آمد پجنگ آمد قوم کو بڑے بڑے خواب دکھ?ئے گئے۔خوابوں کے پیچھے دوڑتی قوم کو رنگ برنگے حیلوں سے لوٹا گیا۔ روٹی کپڑا اور مکان کی متلاشی قوم کو خوشحا لی کے نام پر مقروض بنا دیا گیا۔قوم کی زندگی میں کئی بار وضاحتی لمحے آئے۔جب بھی قوم نے خود فیصلہ کرنے کی ٹھانی۔اسے فیصلہ نہ کرنے دیا گیا۔بیانہ اور ماحول بنا کر قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جاتا رہا۔اسلام کے زریں اصول پیسے اور اختیار کی منصفانہ تقسیم کو پنپنے نہ دیا گیا۔عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے کی بجائے مفت کا مال سمجھکر شاہانہ اخراجات کی نظر کر دیا گیا۔یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا۔ہم گھر بیٹھکر اس ظلم کا ماتم کرتے رہے۔حق بات کرنے کی بجائے مصلحتوں کا شکار رہے۔کیا ہم اس کپوتر کی طرح نہیں جو بلی کو دیکھر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔اسٹیبلسمنٹ کے منہ کو اقتدار کا خون لگ گیا۔کرشمہ ساز کہتے پھرتے ہیں کہ قوم اپنے حق کے لئے خود کھڑی نہیں ہوتی۔کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں؟ ایک ہم ہیں کہ آج بھی کسی مسیحاء  کی تلاش میں ہیں۔جو آئے اور آکر تبدیلی لائے۔ہم نے مسیحاء  کا انتظار کرنے کی بجائے خود کو نہ بدلا۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی کچھ نہیں بدلا۔حالات جوں کے توں ہیں۔وہی کرپٹ سیاسی نظام،وہی مقبولیت اور قبولیت کے بیچ کرشمہ ساز قوت کا تن کر کھڑا ہونا۔ قوم کا مال اڑانا اور قوم پر  حکومت قائم رکھنا۔ پھرکیا ہوا؟ پھر یہ ہوا کہ عوام  کے فیصلوں کو اپنے حق میں زبردستی لانے کے لئے ملک و قوم  سے ریاستی جبر کیا گیا۔ جب ملک کی حالت زار کا باریک بینی سے احاطہ کیا گیا۔تو پتہ یہ چلا کہ سیاسی سماجی اور فرقہ بندی سے قومی کا شیرازہ بکھیر کر ہجوم بنا دیا گیا۔ ان حالات کو دیکھکر دل خون کے آنسو روتا ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے 
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا 
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ہمیں کچھ زیادہ نہیں سوچنا۔بس اتنا سوچنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹیھک ہے یا غلط؟ اس سوال کا جواب میں قوم اور قارئین پر چھوڑتا ہوں؟ قوم کا ہر فرد اپنی ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہونے کی کم از کم اپنی ذات سے شروعات تو کرے۔کہتے ہیں جیسا نظام چلانے والے ہوتے ہیں۔ویسا ہی نظام ہوتا ہے۔نظام چلانے والے چور ہوں تو نظام چور ہوتا ہے۔اب آپ ہی بتائیں ہمارے ملک میں کیا نظام چل رہا ہے؟،۔اور اس نظام میں میں بذات خود کیا حصہ ڈال رہا ہوں؟۔اس سوال کے جواب کے دامن  میں کہیں وہ وضاحتی لمحہ کی چنگاری دب کر  چھپی بیٹھی ہے۔جسے ایک سیکنذ کے ہزارویں حصے میں فیصلے کی تلاش ہے۔وہ وضاحتی لمحہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے اب بس اب اور نہیں۔وضاحتی لمحے کی آہ ہ پکار اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت ہو سکتی۔بس ہم نے ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہو کر اپنے فکر و عمل اور کردار پر نظر ضرور ڈالنی ہے۔اس وضاحتی لمحے کو وقٹ کی آواز سمجھکر اٹھنا ہے کھڑا ہونا  ہے دوڑنا ہے۔ ایک شعر آپکی نظر کر کے  بشرط زندگی دوبارہ ملاقات کروں گا۔
احساس کے انداز  بدل جاتے ہیں  ورنہ  آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و۔ناصر ہوآمین

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...