سیرتِ نبویؐ کی مہکاریں اور سماج کی تشکیلِ نَو

 ضیا پاشیاں…ڈاکٹر شہباز احمد چشتی 
Dr.shahbazadvocate@gmail.com 
سیرتِ  رسول ؐ پر لکھی ہو ئی کوئی بھی کتاب دراصل محبوب خدا کی شخصیت و کردار کا کاغذی پیراہن ہو تا ھے سیرت نگار صفحہ  قرطاس پرخالی حرف و لفظ کی کشیدہ کاری ہی نہیں کرتا بلکہ اگر اس کا  اپنا قلبی تعلق صاحب سیرت کی ذات اقدس سے مضبوط ہو تو وہ قاری کو بطحا کی پر نور وادیوں میں لے جاتا ھے جہاں وہ اس قافلہ عشق و مستی  کے قدموں سے اٹھنے والی  گرد و غبار کو حضر راہ بناتا ھے جس کی قیادت محبوب خدا فرما رہے ہیں اس محسن اعظم? کے درِ رحمت سے جس طرح زندگی  کو بانکپن اور مردہ دلوں کو مسیحائی نصیب ہوئی۔دل بے ساختہ پکار اٹھتا ھے
 خود نہ تھے جو راہ پر ،اوروں کے ھادی بن گئے
کیا نظر تھی ،جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
بہت سے سیرت نگار صر ف تاریخی  واقعات سیرت کو بیان کر نے، اعداد و شمار اور نقشہ جات کے ذریعے اس دور نبوت کی معلومات  اپنے قارئین تک پہنچانے پر اکتفا ء کرتے ہیں۔ جن کو پڑھکر انفارمیشن  تو ملتی ہے مگر امتی کے دل  میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجلیاں نہیں ک?ودتیں جبکہ ضیاء  الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری  کی سیرت طیبہ پر لکھی ہوئی کتاب ضیاء  النبی سطر سطر روشنی اور حرف حرف خوشبو بکھیرتی ھے پیر صاحب  کے قلم نے صرف تاریخی واقعات کو ماضی کے خاموش دریچوں سے نکال کر سینہ ء قرطاس پر منتقل نہیں کیا بلکہ اس کتاب کو پڑھنے والے کا قلبی و حبّی تعلق ذات رسالت مآبؐسے مضبوط ہوتا ھے امتی میں اپنے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن پر مر مٹنے کا جذبہ  بیدار ہوتا ھے اور وہ دنیا کو نظام محمدی کی برکات سے نوازنے کے لئے بے تاب ہو جاتا ھے۔آپ مولانا ابوالحسن ندوی کی کتاب" انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" پڑھ لیں یا پیغمبر اعظم  کی سیاسی جہد و جہد جاننے کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کی کتاب" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیاسی زندگی" کا مطالعہ کریں یا سید سلیمان ندوی  کی کتاب  سیرت النبی میں " بعثت نبوی کے وقت دنیا کی حالت" کی ورق گردانی کریں یا پھر  ڈاکٹر محمد طاہر القادر ی کی سیرت محمدی پر لکھی  ہوئی کتاب کا مقدمہ پڑھ لیں ایک چیز سب میں مشترک ملے گئی کہ بعثت محمدی کے وقت انسانی تہذیب و تمدن تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہے تھے محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قائدانہ حکمت عملی اور عالمگیر دعوت کے نتیجے میں فرد کی شخصی زندگی سے لے کر انسانی سماج کے اجتماعی ڈھانچے تک پورے معاشرے کی ہئیت ہی بدل کر رکھ دی حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر اثر انداز ہو کر تاریخ کے دھاروں کا رخ شرّ سے پھیر کر خیر کی طرف کر دیا یہاں تک کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ سلیم الفطرت جماعت کاروان انسانیت کی  امامت کرنے لگی۔ 
مجھے نعیم صدیقی صاحب مرحوم کے  ادب آفریں قلم  سے لکھی ہوئی سیرت رسول " محسن انسانیت "  پڑھنے کا اتفاق ہواعشق و محبتِ مصطفوی پر مبنی یہ گلدستہ آپ کے اندر حرکت و ارتعاش پیدا کرتا ھے یہ کتاب پیغمبر امن و آشتی کے لائے  ہوئے انقلاب کے دریا کی جولانیوں کا نظارہ ساحل پر بیٹھ کر کرنے کی دعوت نہیں دیتی بلکہ اس دریا میں کود کر اس کی حیات بخش موجوں کا حصّہ بننے کی دعوت دیتی ھے۔ نعیم صدیقی صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا جماعت کے لکھاریوں کے بارے میں عمومی تا ثر یہ ھے کہ ان کی تحریروں میں ادب کی چاشنی یا معلومات کا خزانہ تو ہوتا ھے مگر عشق و محبت اور ورافتگء کی خوشبو سے خالی ہوتی ہیں نعیم صدیقی صاحب مرحوم نے کا فی حد تک اس خلائکو پر کرنے کی کو شش کی ھے انہوں نے ثابت کیا ھے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس نے اولاد آدم کو بدی کے ہلاکت انگیز گر دابوں سے نکال کر ہدایت کی شاہراہ پر جس طرح گامزن کیا ھے تاریخی انسانی میں کوئی اور شخصیت یہ کام نہیں کرسکی۔ 
سچی بات یہ ھے کہ حضور ضیا الامت  جسٹس( ر)پیر محمد کرم شاہ الازہری کی عشق و مستی میں ڈوب کر لکھی ہوئی " ضیا ء   النبی "  کے بعد مجھے سب سے زیادہ جس کتا بِ سیرت نے لطف دیا ھے وہ جناب نعیم صدیقی صاحب کی تالیف" محسن انسانیت" ھے ان کی تحریر صرف جذبہ ء ایمانی کو  ہی تیز  نہیں کرتی بلکہ  شوقِ عمل بھی پیدا کرتی ھے حضور کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے  جس طرح  انسانی ذرائع کو اپنی حکمت عملی سے استعمال کرکے بہت قلیل وقت میں مطلوبہ نتائج حاصل کئے ہیں۔تنظیموں، اداروں کے منتظمین اور ارباب بست و کشاد کے لئے اس میں  حکمت و دانائی کا بہت  بڑا سامان ھے۔ آج کے مادیت ذدہ معاشرے میں مسلم نوجوان کو اس ذات اقدس کی حیات طیبّہ سے متعارف کروانااس لئے بھی بہت ضروری ھے کہ آج کا منتشر نوجوان  ذہن تیقن کے نور سے محروم ھے اس کو دلائل کی قوت سے یہ احساس دلانے کی ضرورت ھے کہ  اس وقت سچائی، انسانی حقوق ، اخلاق حسنہ، امن عالم اور انسانیت کی خیر خواہی پر مبنی جتنی بھی قدریں باقی ہیں وہ سب اسی شجّر طیبّہ سے نکلی ہیں جس کا بیج محمد عربی  نے سرزمین عرب پر بویا تھا صدیوں سے فاسد اور تعفن ذدہ معاشرے میں  آپ نے صرف معجزات سے نہیں قدم قدم پر انسانی جد جہد کی بنیاد پر وہ فسوں پھونکا کہ زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں  کے ساتھ منصہء  شہود پر جلوہ گر ہونے لگی۔ آپ کی ولولہ انگیز قیادت نے جوہر انسانی کو کشید کرکے ایسا پاکیزہ معاشرہ تشکیل فرمایا کہ جس کے افراد پر ایک طرف ق?دسیان فلک رشک کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف  اقوام عالم جن کے کردار سے روشنی حاصل کرتیں  ہیں محمد عربی ؐ نے انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو کیسی  عبقریت اور ان کے ذہن کے زاویوں کو معرفت کا کیسا بانکپن عطا فرمایا  کہ آپ کے صحابہء کرام بوریہ نشین اور دنیا  کی سہولیات سے بے نیاز ہوکر بھی دنیا کے حاکم بن گئے اور عرب وعجم کی قسمتوں کے  فیصلے کرنے لگے یہ منظر سوچ کر ہی  دانائے راز علامہ اقبال بارگاہِ الہی میں عرض کناں  تھے
  مقام شوق، تیرے قدسیوں کے بس کا نہیں 
انہیں کا کام ھے یہ، جن کے حوصلے ہیں زیاد 

  سیرت النبی پر اردو میں ضیا ء  النبی اور محسن انسانیت جبکہ انگلش میں مارٹن لنگز  (Martin Lings) کی کتاب 
Muhammad, his life based on earliest sources 
سکولز اور کالجز کے نصاب میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر نوجوان کو پڑھانے کی ضرورت ھے  اسوقت مسلم معاشرے مغربی ثقافتی یلغار کی زَد میں ہونے اور سوشل میڈیا کی مکروہ مہمات کی وجہ سے جس طرح اجتماعی فساد و بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں اس تباہی سے محفوظ رہنے کا ایک ہی راستہ ھے کہ قرآنی فکر اور سیرت نبوی کی ضیاء  پاشیاں سے انسانی سماج کی ایسی تشکیلِ جدید کی جائے کہ جنت سے نکالا ہوا انسان دوبارہ فردوس اعلیٰ کی بہاروں کا امین بن جائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن