مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات بدستور دگرگوں ہیں۔ آج پاکستان کو ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں بدترین صورت حال کا سامنا ہے۔ سیاسی رواداری مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ سیاسی رواداری کا مظاہرہ آپس میں نہیں بلکہ حریفوں کے ساتھ کیا جاتاہے۔ ویسے تو آج حکومت میں تیرہ یا تیرہ سے زیادہ پارٹیاں ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ ان کے رویوں کو نہیں دیکھاجانا بلکہ ان کے جو بلمقابل پارٹی ہے یا پارٹیاں ہیں ان کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے اس کی اہمیت ہے۔ عمران خان کی پارٹی کو حکومت سے نکالنے کے لیے یہ پارٹیوں کا اتحاد ہوا اور عمران خان کو نکال باہر کیا گیا۔ یہی عمران خان کے لیے بہت بڑا انتقام تھا جیسے میاں نوازشریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا تھا۔ ایک شخص کے لیے یا ایک پارٹی کے لیے اس سے بڑا کیا انتقام ہو سکتا ہے کہ آج وہ تخت نشین ہے، اگلے روز وہ بوریا نشین بن جائے۔ لیکن ہمارے ہاں انتقام کی آگ اس طرح بھڑکتی ہے کہ مخالفین کو سانس لینے کے قابل بھی نہ چھوڑنے پر تْل جاتی ہے۔ یہی آج کل عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔
9مئی کے بعد تو تحریک انصاف کابہت ہی زیادہ حلقہ حیات تنگ کر دیا گیا، اس سے پہلے بھی کچھ خیر کی خبر نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی تحریک انصاف کے بڑے بڑے لیڈروں گرفتار کیا جاتا تو ساتھ ہی حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے یہ کہہ دیا جاتا کہ اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ لیکن اب تو ساری کی ساری پارٹیاں عمران خان، ان کی لیڈرشپ اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریوں کے لیے کوشاں ہے۔الزام یہی لگا یا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے جلائو‘ گھیرائو کیا گیا۔ فوجی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ، فوجی تنصیبات پر، کورکمانڈر ہا?س میں، جی ایچ کیو میں، ریڈیو پاکستان پر حملہ ہوتا ہے لیکن بالکل ہی مزاحمت نہیں کی جاتی اس سے کیا تاثر لیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے خود لوگوں کی لاشیں گرنے سے روکنے کے لیے منع کیا۔ لاشیں کیوں گرانی تھیں کیا مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے یا ان کو کسی عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی ضرورت ہے، لاشیں گرانے کی ضرورت ہے۔ ایسا پہلے بھی کتنی بار ہوا ہے کہ حکومت کی طرف سے پولیس کو آرڈر دیا گیا کہ ان تنصیبات کی حفاظت کرنی ہے اور بخوبی حفاظت کی گئی لیکن اس مرتبہ کیا ہوا کہ پولیس کو بالکل روک دیا گیا اور حکومت کے بیان سامنے آ چکے ہیں کہ آپ نے کوئی کاروائی نہیں کرنی۔اور اس کے بعد جو تباہی ہوئی تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اس میں حکومت کی طرف سے کچھ تخریب کار چھوڑے گئے تھے۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ حکومتی وزیروں کی طرف سے بڑی بڑی گرفتاریوں پر یہ کہا جاتا تھاکہ اس میں ہمارا ہاتھ نہیں ہے تو پھر کس کا ہاتھ ہے یہ نہیں بتایا جاتا تھا۔ ایک صحافی کئی دنوں سے لاپتا ہے۔ ہائی کورٹ کی طرف سے اسے بازیاب کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی، آرڈر دیئے گئے ،سختی کی گئی لیکن وہ بازیاب ہو کر عدالت میں پیش نہیں کیے گئے۔ آئی جی نے بھی یقین دلایا تھا، ڈی پی او نے بھی یقین دلایا تھا لیکن اس صحافی کی بازیابی ممکن نہیں ہو سکی۔ عدالت میں موجود جج صاحب کے علاوہ کوئی دو اڑھائی درجن لوگ موجود ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ۔ سارے کے ساے یہ کہتے ہیں کہ وہ صحافی کہاں ہے ، کچھ پتا نہیں ہر ایک اپنی جگہ پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہے۔ دونوں طرف کے وکلا بھی۔پولیس کے حکام بھی اور دیگر اداروں کے اہلکار بھی۔پولیس اس کو گرفتار کرکے لے گئے تھی، پولیس نے ہی اس کو گرفتار کیا تھا اس کے بعد وہ کہاں گیا۔سارے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کی لاعلمی ایسے ہی ہے جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میں نے اپنا یوسف ? تمہارے ساتھ بھیجا تھا بتائو وہ کہاں ہے۔سب نے کہا …بارہ بیٹے تھے ہر ایک نے کہا ہمیں پتا نہیں ہے۔ اسی طرح سے عدالت کے اندر جتنے لوگ موجود ہیں ان سب کو پتہ ہے کہ وہ صحافی کہاں ہے لیکن انکار کیا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے پی ٹی آئی کے بڑے لیڈروں کی گرفتاریاں ہوئیں تو حکومتی وزرا کی طرف سے ایسا ہی انکار کیا جا رہا ہے اور اب تو تحریک انصاف کو تحلیل کرنے پر بھی یہ لوگ کوشاں نظر آتے ہیں۔
9مئی کی توڑ پھوڑ کا بہانہ بنایا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو گرفتار کرکے کئی کی ہمدردیاں بدلنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ ہم تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے ایک ایسے ہی استعفیٰ پر پارٹی چھوڑنے پر کہا گیا کہ مجھے عامر کیانی کا پارٹی چھوڑ جانا بڑا فسوس ناک لگا، وہ پرانے ساتھی تھے۔ اس طرح سے عامر کیانی کی طرح اور بھی کئی لوگوں کی طرف سے پریس کانفرنس کی گئی ، ان میں ایک علی زیدی بھی ہیں۔ علی زیدی کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس بیان کے تھوڑی دیر بعد وہ پھر پریس ٹاک کرتے ہیں اس میں انہوں نے کہا کہ میں تحریک انصاف نہیں چھوڑ رہا۔تحریک انصاف اگر چھڑوانی ہے تو میرے ماتھے پر گولی ماری جائے۔ اس کے ساتھ انہوں نے کہا مجھے انہوں نے جیل میں نظربند کیا تھا ،میں نے حکومت سے درخواست کی کہ مجھے اگر آپ نے نظربند ہی کرنا ہے تو میرے گھر میں ہی کر دیا جائے۔ تو حکومت نے مجھے میرے گھر میں ہی نظربند کر دیا گیا۔لیکن اس کے بعد کیا ہوا جیسے ہی ان کی یہ گفتگو میڈیا کے ساتھ ختم ہوئی۔ان کو پھر گھر سے اٹھا کر جیک آباد جیل پہنچا دیا گیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں پر کتنا دبا? ہے۔
لاہور سے ایک ایم پی اے کے ٹکٹ ہولڈر کو بھی پریس کانفرنس کے لیے لایا گیا۔ اس نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا، ٹکٹ واپس کرنے کا اعلان کیا۔جب ان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسی پریس کانفرنس جس طرح سے ہوتی ہے آپ کو معلوم ہی ہے، میں تحریک انصاف کے ساتھ ہوں میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ان کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح سے باقی بھی کئی لوگوں کو جن کی پریس کانفرنس ہوئی ان کا بھی یہی قصہ ہے، یہی کہانی ہے۔اور پھر جس طریقے سے تحریک انصاف کا گھیرا? کیا جا رہا ہے ،کل ہی میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی پر کچھ نوجوان سوار تھے وہ اپنے ہاتھ دیکھا رہے تھے ،ہاتھوں پر مہر لگی ہوئی تھی۔ جب کسی کو جیل سے باہر نکالا جاتا ہے تو اس کے ہاتھ پر مہر لگادی جاتی ہے۔ پولیس وین میں وہ بیٹھے نو دس لڑکے تھے۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ ان کو عمران خان کے گھر کے باہر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ تو یہ نوجوان کہ رہے تھے کہ ہم تو جیل میں تھے، ایم پی او کے تحت ہمیں گرفتار کیا گیا تھا۔وہاں سے انہوں نے ہمیں نکالا یہ دیکھیں ہمارے ہاتھوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔ تو ایسے طریقے سے کسی پارٹی کو آپ توڑیں گے تو اس میں کتنی کامیابی ہوگی اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔ جس طرح سے کورکمانڈر ہا?س جلایا گیا،فوجی تنصیبات کو تباہ کیا گیا۔ اس کے لیے ایک غیرجانبدار تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس میں کون لوگ ملوث تھے ، کس نے پلاننگ کی ،یہ سارے کا سارا ایک غیرجانبدارانہ تحقیق کے بعد ہی سامنا آ سکتا ہے۔(قارئین! آپ کو بخوبی یاد ہوگا کہ حضرت قائداعظم? کی رحلت کے سانحے سمیت قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت ،پھر اس کے بعد شملہ معاہدے پر بننے والا کمیشن اور پھر 1971ئ میں بنگلہ دیش کی علیحدگی پر بننے والا حمود الرحمن کمیشن ،پھر ذوالفقار علی بھٹو کی متنازعہ پھانسی پر بننے والی کمیٹیاں، پھر ضیائ الحق مرحوم کے طیارے کی تباہی پر بننے والا کمیشن ،پھر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت پر بننے والی ملکی اور غیر ملکی تحقیقاتی ایجنسوں اور کمیشنوں کی رپورٹس اور سانحہ ماڈل ٹا?ن اور سانحہ آرمی پبلک سکول سمیت دیگر سانحات پر بننے والے کمیشن اور ان سب غیرمعمولی واقعات کی تحقیقات کی رپورٹ یا کسی بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ آج تک کسی سپریم عدالت یا عوام کی عدالت میں پیش کی گئی ہے؟اگر آپ کا جواب نہیں ہے تو یقینا اس دفعہ بھی بننے والا کمیشن یا کمیٹی کیا رپورٹ پیش کرے گی اس کا اندازہ ہم سب کو ہے)