9مئی کے واقعات کے حوالے سے بیان بازی کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور وزیراعظم سے لے کر پنجاب کی نگران حکومت میں شامل وزراء اور مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت تک سب ایک ہی طرح کے بیانات کو دہراتے جارہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 9 مئی کا دن ہماری قومی زندگی کے حوالے سے ایک یومِ سیاہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس دن شر پسند عناصر نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کو بہانہ بنا کر جو کچھ کیا اسے کسی بھی طرح قابلِ قبول یا قابلِ برداشت قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم اب جبکہ ان شر پسند افراد میں سے بہت سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آچکے ہیں تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا عمل شروع کردیا جانا چاہیے تاکہ جب انھیں عدالتوں سے سزا سنائی جائے تو قوم پر واضح ہو جائے کہ ایسے جرائم کے خلاف ریاست کتنی سنجیدگی سے کارروائی کرسکتی ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کہتے ہیں کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ کسی بے گناہ سے زیادتی نہیں ہو گی لیکن کوئی مجرم سزا سے نہیں بچ پائے گا۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق ان خیالات کا اظہار شہباز شریف نے اتوار کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں امن و امان کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ بھی لیا گیا۔ اس موقع پر نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور سکیورٹی حکام و دیگر موجود تھے۔ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سویلین املاک پر حملوں میں ملوث ایسے افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کو آئین اور قانون کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مذاق نہیں کہ کراچی میں ایئر فورس کی تنصیبات پر کوئی حملہ کرے اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچائے اور عمران خان کے جتھے میانوالی میں پہنچ کر ان ہوائی جہازوں کو جو دشمن کے خلاف استعمال کرنے کے لیے قوم کے خون پسینے کی کمائی سے خریدے گئے ان کو جلانے کی ایک منحوس کوشش کریں۔ شہباز شریف نے وزراء کو ہدایت کی کہ ملک و قوم کو اکٹھا کرنے، حالات بہتر بنانے اور اداروں اور عوام میں اعتماد کی فضا برقرار کرنے کے لیے خوب محنت کریں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ملک، قوم اور سب ادارے ہمارے ہیں، اس لیے ان میں دراڑیں ڈالنے والے ملک کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر یہ ہدایت بھی کی کہ نادرا اور سکیورٹی اداروں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے شرپسند عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے۔
ادھر، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو قانون کے مطابق پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے بھی بنیادی حقوق نہیں چھین رہے، قانون کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے نہیں ہوگا، میں کسی کی حب الوطنی پر شک نہیں کرتا لیکن 9 مئی کو آرمی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کی نیت اور ان کے اس مٹی سے رشتے پر سوالیہ نشان ضرور نظر آتا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے نئی فوجی عدالتیں نہیں بنائی جائیں گی، قانون اور عدالتیں پہلے ہی سے موجود ہیں۔ اسی طرح، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک انٹرویو میں 9 مئی کے واقعات کو پاکستان کی مسلح افواج کے لیے امریکا کے نائن الیون کے واقعہ کی طرح انتہائی سنگین، ناقابل برداشت اور ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دفاعی تنصیبات اور قابل فخر علامات پر حملہ کرنے والے بلوائیوں کے خلاف شواہد کی بنیاد پر کارروائی کر کے انھیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ تو کوئی انتقام اور نہ ہی سیاست ہے، یہ پا کستان کا سوال ہے۔
دوسری جانب، عمران خان نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری گرفتاری کے بعد پیش آئے واقعات کا بہانہ بناتے ہوئے میری پارٹی کو توڑ رہے ہیں، سینکڑوں خواتین اور بچوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے، اب وہ فوجی عدالتوں میں ہمارا مقدمہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری بیان میں انھوں نے برطانوی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جنرل عاصم منیر نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی انھیں بشریٰ بی بی کے بدعنوانی میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے تھے۔
اس ساری صورتحال میں سیاسی قیادت کی بیان بازی اور الزامات کا سلسلہ تو خوب چل رہا ہے لیکن عوام اور ملک کو اس سیاسی کشمکش سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث شر پسند افراد کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کرا کے حکومت اپنے کام پر توجہ دے اور یہ کوشش کرے کہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو کسی نہ کسی طرح ریلیف فراہم کیا جاسکے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ بہت ہوچکی ہے اب حکومت کو حقیقی عوامی اور ملکی مسائل پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اسے مینڈیٹ اسی کام کے لیے ملا ہے۔