بھارتی عدالت نے گجرات فسادات کے تناظر میں وزیراعظم نریندر مودی پر بنائی جانے والی دستاویزی فلم پر برطانوی نشریاتی ادارے کو ہتک عزت کے مقدمے میں طلبی کا نوٹس جاری کردیا۔اس دستاویزی فلم میں بی بی سی نے نریندر مودی اور ملک کی مسلم اقلیت کے درمیان کشیدگی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد میں مودی کے کردار کے بارے میں ”تحقیقاتی دعوؤں“ کوبھی مدنظر رکھا ہے۔ مودی 2001 سے 2014 تک مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔فروری اور مارچ 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات میں ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے، اس کا آغاز 27 فروری 2002 کو گودھرا میں کار سیوکوں (مذہبی رضاکار) کو لے جانے والی ٹرین جلانے کے بعد ہوا تھا جس میں 59 افراد ہلاک ہوئے۔ 2005 میں بھارتی پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ بعد ازاں پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں 790 مسلمان اور 254 ہندو مارے گئے، 223 مزید افراد لاپتہ اور 2500 زخمی ہوئے۔گجرات کی ایک غیر منافع بخش تنظیم کی جانب سے دائر ہتک عزت کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ رواں کے اوائل میں نشر ہونے والی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچین (India: The Modi Question) نے بھارت، اس کی عدلیہ اور وزیر اعظم کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔جسٹس آن ٹرائل کے وکیل سدھارتھ شرما نے کہا کہ یہ مقدمہ اس بنیاد پر دائر کیا گیا ہے کہ دستاویزی فلم نے بدنیتی سے ہندوستان کو بدنام کیا۔انہوں نے بتایا کہ عدالت نے بی بی سی کو نوٹس جاری کیا ہے اور آئندہ سماعت 23 ستمبر کو ہوگی۔معاملےپر بی بی سی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم عدالتی کارروائی سے آگاہ ہیں۔ اس مرحلے پر مزید تبصرہ کرنا نامناسب ہوگا۔یہ سمن ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب بھارتی ٹیکس حکام نے فروری میں نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر کا معائنہ اور فنانشل کرائم ایجنسی نے اپریل میں غیر ملکی زرمبادلہ کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تحقیقات کا آغاز کیا۔ٹیکس اتھارٹی نے بی بی سی کا نام لیے بغیر کہا کہ اسے ایک ’بین الاقوامی میڈیا کمپنی‘ کے ریکارڈ میں غیر اعلانیہ آمدنی کے ثبوت ملے ہیں۔ حکومت کے ایک مشیر نے کہا کہ یہ معائنہ ”انتقامی“ نہیں تھا۔دوسری جانب مودی نے ان الزامات کی تردید کی کہ انہوں نے فسادات کو روکنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے اور سپریم کورٹ کے حکم پر جانچ میں ان کیخلاف مقدمہ چلانے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ملا۔سپریم کورٹ نے گزشتہ سال نئی تحقیقات کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ بھارتی حکومت نے اس دستاویزی فلم کو متعصبانہ پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے اس کے کسی بھی کلپ کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے روک دیا۔اس سے قبل بی بی سی نے اپنے موقف میں کہا تھا کہ اس کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ اس دستاویزی فلم کے لیے اپنی رپورٹنگ پر قائم ہے۔