قسمت کی دیوی گیلانی خاندان پر مہربان ہے، حالیہ دنوں ملتان کے حلقہ این اے 148 میں اپنے والد کی خالی کردہ نشست پر سید علی قاسم گیلانی کی جیت سے ایک نیا ریکارڈ قائم ہوگیا کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینٹ ہیں اور انکے تین بیٹے سید عبد القادر گیلانی، سید علی موسیٰ گیلانی اور سید علی قاسم گیلانی بیک وقت اراکین قومی اسمبلی اور چوتھے بیٹے سید علی حیدر گیلانی رکن صوبائی اسمبلی پنجاب ہیں۔ اس طرح ملتان کے عوام کا یہ بھاری مینڈیٹ گیلانی خاندان کیلئے ایک امتحان بھی ہے کہ ملتان شہر کے چار حلقوں کی عوام کی توقعات پر کیسے پورا اترا جائے۔سید علی قاسم گیلانی نے الیکشن میں کامیابی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے گیلانی خاندان انکے اس اعتماد پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریگا۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں ،مخدوم زین قریشی ،مہربانو قریشی اور امیدوار حلقہ این اے ملک تیمور مہے کی جانب سے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے اور ریٹرننگ آفیسر کے رویہ کے خلاف الیکشن ڈے پر آر او آفس کے باہر احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا۔ اس موقع پر انکا کہنا تھا کہ ریٹرنگ آفیسر نے مکمل جانبداری کا مظاہرہ کیا انہیں نتائج مرتب کرنے کے عمل میں شامل ہی نہیں کیا گیا اگر اسی طرح ہی کرنا تھا تو الیکشن کروائے ہی کیوں جارہے ہیں جبکہ ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے مذکورہ الزامات کو مسترد کردیا گیا۔ طویل عرصے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے ملتان میں اتنی بڑا مینڈیٹ حاصل کیا ہے جس کے مثبت اثرات پورے جنوبی پنجاب پر مرتب ہونگے کیونکہ جنوبی پنجاب ہی وہ خطہ ہے جہاں سے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کامیابی سمیٹ کر مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتی رہی ہے اور اب بھی پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کو فوکس کئے ہوئے ہے۔
مزید برآں پسماندہ خطہ جنوبی پنجاب میں انڈسٹری کم ہے اور لوگوں کی اکثریت کا انحصار زراعت سے وابستہ ہے ،پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کاشتکاروں کو ریلیف فراہم کیا مگر اس بار نگران دور حکومت کے گندم سکینڈل کے باعث پنجاب اور سندھ میں حکومت نے کاشتکاروں سے گندم کی خریداری نہیں کی اور کاشتکاروں کو انکی محنت کا جائز منافع نہیں مل سکا اور جنوبی پنجاب میں گندم حکومت کی اعلان کردہ 3900 روپے سپورٹ پرائز کی بجائے 2500 سے 2700 روپے فی من فروخت ہورہی ہے۔ بیشتر کاشتکاروں کی فصل تاحال فروخت نہیں ہوسکی جسکی وجہ سے اس خطہ میں کپاس کی فصل کی کاشت بھی شدید متاثر ہورہی ہے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ مہنگے کھاد، بیج،پانی اور سپرے کے باعث پیدواری اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ مکئی کے بعد انہیں گندم کا بھی پورا معاوضہ نہیں ملا جس سے کاشتکار معاشی طور پر تباہ ہوگئے ہیں مگر حکمرانوں کو انکا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ کپاس اور چاول کی کاشت کیلئے زیادہ وسائل درکار ہوتے ہیں اور گندم کے مناسب نرخ نہ ملنے سے انکا معاشی سرکل شدید متاثر ہوا ہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے جن پاسکو مراکز پر تھوڑی بہت گندم خرید کی جارہی ہے وہاں کرپشن کی شکایات عام ہیں۔ کاشتکاروں کے مطابق گندم سکینڈل اور کاشتکاروں کے استحصال کیخلاف انکی کسان تنظیموں کا کردار بھی مایوس کن رہا اور اکا دکا مظاہروں کے علاوہ کسان لیڈر منظر سے غائب دکھائی دئیے جبکہ سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے فلورز پر اپوزیشن جماعتوں نے اس اہم ایشو پر آواز بلند کی مگر جماعت اسلامی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے عملی طور پر سڑک پر احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا۔ بظاہر یہ ایشو حکومت کی جانب سے کاشتکاروں سے گندم خریداری نہ کرنے کا دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت کاشتکاروں کی فصل مارکیٹ میں کم نرخوں پر فروخت ہونے سے معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں اور اسکے ملکی معیشت پر منفی اثرات ہونگے۔ دوسری جانب گندم کے نرخ انتہائی نیچے آنے کے باوجود اس سے تیار ہونے والی بائی پراڈکٹس کے نر خوں میں کمی نہیں آئی اور منافع خور اپنا منافع کم کرنے کو تیار نہیں، حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کا نوٹس لے اور گندم کے موجودہ نرخ کے مطابق اس سے تیار ہونے والی اشیاء کے نرخوں میں کمی کرواکر عوام کو ریلیف فراہم کرے۔