بلوچستان میں حکومت نے کام شروع کردیا ایرانی صدر کی حادثاتی موت کی وجہ سے صوبے میںسیکورٹی الرٹ کردی گئی ہے عدلیہ کی جانب سے پی ٹی آئی کو ریلیف کا سلسلہ جاری ہے اٹھائیس مئی کو میاں نواز شریف کی باقاعدہ متحرک سیاست میں واپسی ہورہی ہے نواز شریف اپنے تجربے کی بنیاد پر وفاق و پنجاب حکومت کو بھنور سے نکال لیں گے سیاست میں کو ئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی بلکہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے کل کے بادشاہ آج زندان میں اسیر ہیں تو جو گزشتہ کل اسیر تھے وہ اب اقتدار میں ہیں اور آنے والے کل کیا ہوگا اسکا تو تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اڈیالہ جیل میں روز بروز نئے نئے کارڈز شو کررہے ہیں لیکن ان کے کارڈز اب غیر موثر ہورہے ہیں جس کی وجہ سے عمران خان کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے مایوسیوں کا شکار عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے محبت کی پینگیں بڑھانا چاہتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ انہیں گھاس نہیں ڈال رہی آٹا سستا چینی سستی روٹی سستی کوکنگ آئل سستا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی مرغی سستی ہوگئی ہے مرکز میں شہباز شریف اور پنجاب میں مریم نواز یکسوئی کیساتھ عوامی فلاح وبہبود کا عمل زور شور سے جاری ہے آئی ایم ایف سے اگلے پیکج کیلیئے مذاکرات ہورہے ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی یہ معاہدہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری کی خبریں بھی عمران خان کو جیل میں پریشان کررہی ہیں۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صدر کے عہدے سے شہباز شریف مستعفی ہوگئے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اب دما دم مست قلندر ہوگا کیو نکہ مسلم لیگ ن کے صدر کے عہدے پر اب میاں نواز شریف فائز ہوں گے اور خواجہ سعد رفیق کو سیکرٹری جنرل بنایا جارہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر کے عہدے پر میاں جاوید لطیف آسکتے ہیں میاں نوازشریف مسلم لیگ ن کے قائد کی حیثیت سے ملک بھر میں دورے اور جلسے کریں گے عوام کو بتایا جائے گا کہ ان کیساتھ کیا کیا ہوا۔مسلم لیگ ن کے قائد کی حیثیت سے میاں نوازشریف عوام میں نکلنے کو تیار ہیں تو شہباز شریف اور مریم نواز اپنی پرفارمنس سے عوام کو ریلیف دے رہے ہیں ایسے میں عمران خان کا کیا ہوگا۔یہی وہ سوچ ہے کہ عمران خان جیل میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کے حوالے سے انتہائی پریشان ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے مذاکرات کرے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس پر راضی نہیں ہے عمران خان چاہتے ہیں کہ انہیں کے پی کے میں کسی جیل میں شفٹ کردیا جائے کیونکہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن وفاق اس پر بھی راضی نہیں ہے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی پارٹی میں اختلافات عروج پر ہیں اسکا شیرازہ بکھر رہا ہے بشری بی بی کا کوئی عمل کارگر نہیں ہو پارہا گڈ ٹو سی یو کہنے والے بھی اب نہیں رہے اس صورت حال میں اگر نواز شریف اپنے بیانیئے سمیت عوام میں نکلتے ہیں تو عمران خان کا دم توڑتا بیانیہ اور سیاست ختم ہوجائیں گے۔