رؤف حسن پر حملے سے پیدا ہوتے وسوسے

ان دنوں منیر نیازی کے بتائے’’حرکت تیز تر‘‘ والے ہیجان کی زد میں ہوں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی کونسے موضوع پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ’’روز کی روٹی روزی‘‘ کمانے کا بندوبست کروں۔ رات سونے سے قبل تاہم اکثر یہ طے کرلیتا ہوں کہ صبح اٹھتے ہی فلاں موضوع پر ہر صورت لکھ دیا جائے۔ ارادے پر عمل پیرائی کے بعد اسے دفتر بھجوادیتا ہوں۔ صبح چھپا کالم پڑھتے ہی مگر احساس ہوتا ہے کہ شاید قارئین کی اکثریت اس میں زیر غور لائے موضوع میں دلچسپی نہیں لے گی۔ وہ اسے ’’باسی‘‘ یا ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ قراردیں گے۔
گزشتہ کئی دنوں سے مذکورہ بالا حوالے سے ذہن کو جو خلش مسلسل تنگ کئے جارہی ہے اس سے نجات کی خاطر کئی بار فیصلہ کیا کہ سیاسی موضوعات پر لکھنا ترک کردیا جائے۔ سیاست سے ہٹ کر لکھے چند کالموں کو توقع سے زیادہ ستائش بھی نصیب ہوئی۔ اسلام آباد میں کئی دہائیوں سے مقیم ذات کے رپورٹر سے مگر ریگولر قارئین ایوان ہائے اقتدار کی کہانیاں سننا چاہتے ہیں۔ ایوان ہائے اقتدار کے مکینوں نے مگر عرصہ ہوا ’’دوٹکے کے رپورٹروں‘‘ سے جندچھڑانے کے سونسخے دریافت کرلئے ہیں۔ غیر رسمی ملاقاتوں کے ذریعے ’’اندر کا احوال‘‘ سنانے سے گریز کرتے ہیں۔ وہاں مقیم ہر شخص فرض کئے بیٹھا ہے کہ اس کی ہر حرکت اور بات کہیں ریکارڈ یا نوٹ ہورہی ہے۔ برسوں کے یارانے بھی اس کی وجہ سے اب بداعتمادی کی زد میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔
لاطینی امریکہ کا ایک مسحور کن حد تک تخلیقی اور صاحب طرز ناول نگار تھا۔ نام تھا اس کا گبرائل گارسیامارکوئیز۔ قریبی دوست اسے پیار سے ’’گابو‘‘ پکارتے تھے۔ گابو نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہت لگن سے صحافی بننا چاہا۔ اخبار کی نوکری ملی تو گھر چھوڑ کر دوسرے شہر منتقل ہونا پڑا۔ کم اور کبھی کبھار ملنے والی تنخواہ کی وجہ سے وہ ایک بدنام زمانہ ہوٹل میں شب بسری کو مجبور ہوا۔ بتدریج اس نے فیصلہ کیا کہ اخبار کا کام ختم کرلینے کے بعد وہ دفتر ہی میں اخباری کاغذوں کے ڈھیر کا بستر بناکر سوجایا کرے۔ بے آرامی سے دھیان ہٹانے کے لئے اس نے ذہن میں آئی کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ دریں اثنا اس کے ملک میں صحافت بھی ہماری طرح فوجی آمریتوں کی وجہ سے بہت ’’آزاد‘‘ ہوچکی تھی۔ پابندیوں سے اْکتاکر اس نے اپنی صلاحیتو ں کو صرف اور صرف افسانے اور ناول لکھنے پر مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی بدولت لکھے ناولوں میں سے ’’سو سال کی تنہائی‘‘ کے عنوان سے لکھے ناول نے بہت شہرت پائی۔ ہسپانوی زبان کے قاری دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ادب ان کی پسندیدہ صنف ہے۔ گابو کا یہ ناول مشہور ہوا تو وہ امیر بھی ہوگیا۔ اپنا ملک چھوڑ کر میکسیکو میں رہنا شروع کردیا اور عمر تمام ناول لکھنے میں گزاردی۔
ان دنوں وطن عزیز میں آپا دھاپی کا جو عالم ہے وہ اکثر مجھے ’’سوسال کی تنہائی‘‘ میں بیان کردہ ماحول،کرداروں اور نسلوں کی یاددلاتا ہے۔ کم از کم تین نسلیں جو ہمارے عبداللہ حسین کے لکھے ایک ناول کے مطابق ’’اداس نسلیں‘‘ ہی قراردی جاسکتی ہے۔ ’’سو سال کی تنہائی‘‘ کے علاوہ گابو کے لکھے دیگر ناولوں میں بھی روزمرہّ زندگی سحر زدہ محسوس ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے کردار جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ شہر آشوب ہے۔ وہاں عجیب وغریب واقعات رونما ہوئے چلے جاتے ہیں۔
منگل کے دن میں ٹی وی شو کی تیاری میں مصروف تھا۔ کمرے میں جو ٹی وی لگاتھا اس پر اچانک بریکنگ نیوز آئی کہ تحریک انصاف کے ترجمان رئوف حسن صاحب پر نامعلوم افراد نے حملہ کردیا ہے۔ بوکھلاہٹ میں پروگرام کی تیاری چھوڑ کر مذکورہ حملے کی تفصیلات معلوم کرنے میں مصروف ہوگیا۔ جو کچھ میرے علم میں یہ کالم لکھنے تک آسکا وہ آپ کی اکثریت نے صبح کے اخبارات ،اپنی پسند کے ٹی وی چینل یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے جان لیا ہوگا۔ میرے پاس اس واقعہ کے حوالے سے بتانے کو کوئی ’’نئی بات‘‘ موجود نہیں۔
رئوف حسن سے میری ہرگز شناسائی نہیں۔ وہ میرے لئے تقریباََ اجنبی ہیں۔ ہم دونوں کے مابین پائی اجنبیت کے باوجود رئوف حسن پر ہوئے حملے نے مجھے دہشت زدہ کردیا ہے۔ 1975ء سے اسلام آباد میں مقیم ہوں۔ صرف چند ہی برس قبل تک یہ پاکستان کا سب سے پرامن شہر تھا۔ 1986ء تک میں رات گئے اکثر تقریباََ ویران محسوس ہوتے محلوں سے پیدل چلتے ہوئے اپنے گھرلوٹتا اور ایک لمحے کو بھی گھبراہٹ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
1990ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی مگر یہ شہر بھی پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح بے ہنگم انداز میں پھیلنا شروع ہوگیا۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے باوجود یہاں جرائم کی تعداد میں اگرچہ اس کی مناسبت سے اضافہ نہیں ہوا۔ سنا ہے اسلام آباد کو سی سی ٹی وی کیمروں کی بدولت ’’سیف سٹی‘‘ بنادیا گیا ہے۔ کئی بار ہماری حفاظت کو لگائے کیمرے البتہ وقت ضرورت کام نہیں آتے۔اس کے باوجود اسلام آباد کے رہائشی کو عموماََ یہ احساس رہتا ہے کہ وہ نسبتاً ایک محفوظ شہر میں رہ رہا ہے۔
لوگوں کو عموماََ پرامن نظر آنے والے اس شہر میں ایک مشہور مارکیٹ میں واقع ٹی وی چینل سے باہر نکلتے ہوئے تحریک انصاف کے ترجمان پر بے خطر انداز میں ہوا حملہ حیران کن ہے۔حملہ آوروں کی صورتیں حملے کے چند ہی لمحوں بعد ریگولر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ میں یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں کہ حملہ آوروں کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ ’’سیف سٹی‘‘ کی برتری کو پوری طرح جاننے کے باوجود رئوف حسن پر جو حملہ ہوا وہ ہر حوالے سے دیدہ دلیری ہے۔ جو دیدہ دلیری برتی گئی اس نے وسوسوں بھرے دلوں کو فی الفور یہ طے کرنے کو اکسایا کہ ’’نامعلوم‘‘ حملہ آوروں کو طاقت ور حلقوں کی پشت پناہی میسر تھی۔ حملے کا مقصد رئوف حسن 2کو ’’سبق سکھانا‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور توجیہہ مجھے سننے کو نہیں ملی اور میرے لئے عمومی طورپر مشہور ہوئی یہ توجیہہ پریشان کن ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ رئوف حسن صاحب کے ساتھ جو واقعہ ہوا ان جیسے تمام واقعات کے بارے میں غور کرتے ہوئے ہم فقط ایک ہی توجیہہ پر کیوں متفق ہوجاتے ہیں اور ’’نامعلوم افراد‘‘ کے حملوں کے دیگر پہلوئوں کو زیر غور لانے کو آمادہ کیوں نہیں ہوتے۔ نہایت دْکھی دل کے ساتھ وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب سے دست بستہ فریاد ہے کہ جلد از جلد رئوف حسن صاحب پر ہوئے حملے کی حقیقی اور تمام تر تفصیلات لوگوں کے روبرو رکھیں۔ ایسا نہ ہوا تو لوگوں میں موجود وسوسے ہی معتبر شمار ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن