قصّہ منصور کے پردے میں خدا کے بولنے کا! 

May 23, 2024

عبداللہ طارق سہیل

ماما ہمیں بچا لو، ماما ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ماما ہم مرنا نہیں چاہتیں، وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔ لرزتی کانپتی روتی دو بچیوں کی یہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی۔ چار پانچ سال کی دو بہنیں خیمہ بستی میں بموں کی آوازوں سے ڈر رہی تھیں۔ بم اور میزائل اوپر سے دھاڑتے گرجتے گزر رہے تھے اور آگے کی خیمہ بستی پر گر رہے تھے۔ خیموں سے آہ و بکا کی آوازیں آتی تھیں یعنی ان میں کچھ لوگ مر گئے، کچھ بچ گئے اور کچھ خیموں میں مکمل خاموشی تھی، یعنی ان کے سارے مکین مارے گئے۔ کچھ دیر بعد موت کے قافلوں کی پرواز رک گئی، خاموشی چھا گئی۔ ننّھی بہنوں نے رونا بند کر دیا، لیکن وہ اب بھی کانپ رہی تھیں ، شام کو دوسری بمباری کے بعد ان ننّھی بہنوں کا مسئلہ بھی ختم ہو گیا۔ ان کا خیمہ بھی خاموش ہو گیا۔ 
ایک اور ویڈیو وائرل ہے۔ پانچ سال کی ایک بچی ہاتھ میں چھوٹا سا برتن پکڑے دوڑ رہی ہے۔ اس میں اس کے ننّھے شیرخوار بھائی کا دودھ ہے۔ پیچھے پیچھے اس کی ماں چلی آتی ہے مزید پیچھے جلتی عمارتوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ فوٹو گرافر اس بچی سے پوچھتا ہے تم کیوں بھاگ رہی ہو۔ وہ کہتی ہے انہوں نے ہمارا گھر بم مار کر تباہ کر دیا ہے۔ یہ فقرہ ادا کرنے کے بعد وہ رو پڑتی ہے۔ فوٹو گرافر پھر پوچھتا ہے تم کہاں جا رہی ہو۔ وہ کہتی ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں ہم کہاں جا رہے ہیں، ہم بس بھاگ رہے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ پھر رو پڑتی ہے۔ پانچ سال کی اس بچی کی چھ ماہ میں یہ چھٹی ہجرت ہے۔ شمال سے نکلے ، وسط میں پہنچے، حکم ہوا یہاں سے بھی نکلو، مزید جنوب کی طرف، وہاں بھی یہ حکم ہوا۔ مزید جنوب میں گئے، وہاں بھی بمباری شروع ہو گئی، آخر رفاہ کی 5 میل چوڑی 8 میل لمبی پٹی میں پہنچے ، وہاں بھی بمباری شروع ہو گئی اور شدید ترین بمباری، حکم ہے یہاں سے بھی نکلو۔ یہاں سے نکل کر کہاں جائیں، آگے مصر کی فولادی سرحد ہے، مصر کے فوجی اسرائیل سے بھی بڑھ کر ان کے خون کے پیاسے ہیں۔ فرار کے راستے بند، صرف موت کی آغوش وا ہے۔ 
تیسری وائرل ویڈیو ایک معذور کی ہے۔ یہ پہلی بمباری میں زخمی ہوا اور زیر علاج رہنے کے بعد ٹھیک ہو گیا لیکن گھر تباہ ہو گیا۔ دوسری بمباری میں اس کی ٹانگ کٹی۔ ویڈیو میں وہ بیساکھی کے سہارے بھاگ رہا ہے۔ زندگی کی تلاش میں بھاگ رہا ہے۔ یہ ویڈیو بننے کے اگلے روز تیسری بمباری میں وہ مار دیا گیا۔ اسکی نہ ختم ہونے والی دوڑ ختم ہو گئی۔ 
بچوں کی لاشوں کی صفوں سے میدان بھرے ہوئے ہیں۔ 40 ہزار میں سے 16 ہزار لاشے بچوں کے ہیں۔ بچے جو مر گئے، بچے جو شدید زخمی ہیں، بچے جو ٹراما میں ہیں اور صدر بائیڈن نے کل ہی پھر یہ بیان دیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں نسل کشی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ 
دو طاقتور عرب ملک بے چین ہیں کہ کب غزہ میں ’’صفائی‘‘ کا عمل مکمل ہو اور وہ اس سہ ملکی ’’پراجیکٹ‘‘ پر عمل کریں جس کے تحت جدید ترین تفریحی سیاحتی مرکز تینوں ملکوں کے سنگم پر بنایا جانا ہے جس سے کروڑوں کی نہیں، اربوں کی آمدنی ہو گی۔ روپے میں نہیں، ڈالروں میں۔ تین میں دو عرب، تیسرا اسرائیل۔ اور صفائی کا عمل ہے کہ پورا ہی نہیں ہو رہا۔ بہرحال دونوں عرب ممالک کا صبر قابلِ داد ہے، اسرائیل کا صبر تو اور بھی قابل داد
_____
اسلام آباد میں جماعت اسلامی نے غزہ والوں کے حق میں ریلی نکالی۔ ایک طاقتور منصب دار کے بیٹے نے جو خود بھی منصب دار ہے، اس ریلی پر گاڑی چڑھا کر دو کارکن شہید کر دئیے۔ 
پاکستان میں اسرائیل کے یہ چلتے پھرتے سفارت خانے پرویز مشرف کے دور سے زیادہ متحرک ہوئے لیکن مظاہرین پر کار چڑھانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ معاملے کی شروعات ہے، دیکھئے بات آگے کہاں تک پہنچتی ہے۔ اطلاع ہے کہ ملزم گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حیرت ہے، ابھی تک ضمانت نہیں ہوئی؟ 
_____
ریاست حیران ہے کہ زرکثیر و خطیر صرف کر کے انہوں نے جن پتوں کی آبیاری کی تھی، وہی ہوا دینے لگے ہیں۔ زرکثیر و خطیر سے مراد وہ اربوں ڈالر ہیں جو ’’ہائبرڈ وار‘‘ کے مجاہدین پر خرچ کئے گئے۔ یہ مجاہدین صرف میڈیا میں نہیں تھے، اداروں میں بھی بھرتی کئے گئے اور تھوک کے حساب سے کئے گئے، انہیں روپے اور ڈالر بھی تھوک کے حساب سے دئیے گئے۔ اب ان کی جتنے اربوں روپے کی جائیدادیں پاکستان میں ہیں، اس سے زیادہ اربوں کی جائیدادیں یورپ اور امریکہ میں ہیں۔ کسی کی دوہری شہریت ہے تو کسی کے پاس گرین کارڈ۔ ڈر کاہے کا چنانچہ بے خوف ہو کر وہ ریاست پر حملہ آور ہیں۔ 
بہرحال، فیصل واڈا صاحب کل سینیٹ میں بولے۔ اس سے پہلے وہ میڈیا پر بولے تھے تو انہیں نوٹس ہو گیا تھا۔ سینیٹ میں وہ دس گنا زیادہ بولے۔ لاہور اور اسلام آباد کے کئی ’’قدسی صفت دیوتا‘‘ ان کی زد میں آئے۔ رات بستر میں جانے سے پہلے یہ دیوتا تھرتھر کانپے تو ہوں گے۔ غصّے سے ہی سہی! 
کسی ولاگر اور تجزیہ کار نے سکرین پر کہا ، واڈا نہیں بول رہا۔ منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے۔ پتہ نہیں، اس کا کیا مطلب ہے۔ 
برسبیل تذکرہ، منصور کے پردے میں خدا کے بولنے والا یہ مصرعہ اردو شاعری کے بے ہودہ ترین مصرعوں میں سے ایک ہے۔ خدا پیغمبروں کی زبان میں بولتا ہے، قرآن میں بولتا ہے، منصور کے پردے میں خدا نہیں، خود منصور کا دماغی خلل  بول رہا ہے۔ 
_____
شہباز حکومت نے مختصر مدّت میں دوسری عظیم الشان کامیابی حاصل کی ہے۔ گندم سکینڈل کو دفن کرنے کا مرحلہ کسی خاص دقت کے بغیر حل کر لیا گیا ہے۔ دوچار کلرک نما افسروں، افسر نما کلرکوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے۔ بہتر تھا دو چار چپڑاسی بھی ٹانگ دئیے جاتے۔ جنہوں نے اربوں روپے کمائے ، وہ مکھن سے بال کی طرح صاف نکال لئے گئے۔ 
پہلی کامیابی آزاد کشمیر میں بجلی ’’مفت‘‘ کرنے کی صورت میں حاصل کی گئی تھی۔ پختونخواہ میں خیر سے پہلے ہی مفت ہے۔ شمالی بلوچستان میں بھی مفت ہے۔ جنوبی بلوچستان میں بجلی ہے ہی نہیں۔ 
اب ساری مفت بجلی کی کسر پنجاب اور سندھ میں پوری کی جائے گی چنانچہ دونوں صوبوں میں بل ڈبل ٹرپل ہو کر آ رہے ہیں۔ یہ تو محض دو کامیابیاں تھیں، مزید کا انتظار فرمائیے۔

مزیدخبریں