برطانوی اور پاکستانی جمہوریت میں بنیادی فرق

2 مئی 2024ء کے انگلستان کے 192 ضلعی اور Councils Boroug میں میئرز اور کونسلروں کے ہونیوالے حالیہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے 2 ہزار 6 سو کونسلرز کے نتائج میں حکومتی کنزرویٹو پارٹی کے مقابلہ میں لیبر پارٹی نے گو بڑی کامیابی حاصل کی تاہم مجموعی طور پر انگلستان کے بعض علاقوں میں لیبر پارٹی وہ نتائج حاصل نہیں کر پائی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق لیبر پارٹی کو ٹوری پارٹی پر جہاں سبقت حاصل ہوئی وہیں گرین پارٹی اور لیبر ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی ماضی کے مقابلے میں توقع سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ لیبر پارٹی کی سب سے بڑی کامیابی لندن میں صادق خان کا تیسری مرتبہ میئر منتخب ہونا ہے۔ اسی طرح میں لندن کی برنٹ کونسل میں برادرم طارق ڈار کے میئر منتخب ہونے کو لیبر پارٹی میں دوسری کامیابی تصور کررہا ہوں۔ عام انتخابات سے قبل کونسلوں کے ان انتخابات سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ آئندہ چند ماہ بعد متوقع انتخابات سے قبل موجودہ حکومتی کنزرویٹو پارٹی کو عوامی ووٹوں کے حصول کیلئے بعض اہم سیاسی فیصلے ہی نہیں‘ اپنی متعدد خارجہ پالیسیوں کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہوگا ۔
لیبر اور ٹوری پارٹی کے مابین ہونیوالے اس بڑے سیاسی معرکے میں دونوں پارٹیوں کی کئی نشستیں چھن جانے کی دیگر وجوہات سمیت ایک بڑی وجہ اسرائیل کی مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر غزہ میں تادم تحریر جاری وحشیانہ بمباری، 50 ہزار سے زائد معصوم بچوں‘ عورتوں‘ بزرگوں‘ اپاہجوں‘ معذوروں‘ بیماروں اور نوجوانوں کی شہادتیں اور برطانوی حکومت اور بطور حزب اختلاف لیبر پارٹی کا امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں کا غیرمشروط وہ دفاع بھی تھا جو مسلم ووٹروں کی توقعات پوری نہ کر سکا۔ برطانوی مسلمانوں کا زیادہ ٹرن آئوٹ گرین پارٹی‘ لیبر ڈیموکریٹ پارٹی اور مانچسٹر اور راچڈیل سے کامیاب ہونیوالی ’’ورکرز پارٹی آف برٹن‘‘ کے سربراہ‘ ممتاز برطانوی سیاست دان اور رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کا دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں پر صہیونی طاقتوں کی جانب سے ڈھائے جانیوالے مظالم اور جیلوں میں بے گناہ قید سیاست دانوں‘ لیڈروں اور کارکنوں کے حق میں آواز اٹھانے کا سلسلہ چونکہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے اس لئے انکے اس انسان دوست جذبہ سے متاثر ہو کر مانچسٹر اور راچڈیل سمیت دیگر کئی شہروں میں مقیم مسلم کمیونٹی نے انکی پارٹی ورکرز آف برٹن کے امیدواروں کو بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے۔ مانچسٹر کونسل میں جہاں لیبر پارٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے کامیاب ہوتی چلی آرہی تھی‘ ’’جارج گیلوے‘‘ کی ڈبلیو آئی بی پارٹی کے امیدوار شہباز سرور کے ہاتھوں اس مرتبہ لیبر ڈپٹی لیڈر لطف الرحمان کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ دو سیٹوں پر شکست کے بعد لیبر پارٹی کے پاس اب 44 نشستیں رہ گئی ہیں۔ لیبر لیڈر Starmer Keir نے ان دو نشستوں کے کھو جانے پر گو دکھ کا اظہار کیا مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ کھوئی ہوئی سیٹیں لیبر پارٹی جلد ہی واپس لینے میں کامیاب ہو جائیگی۔ 
کونسلوں کے ان انتخابات میں بیشتر پولنگ سٹیشنوں پر صورتحال اس مرتبہ انتہائی دلچسپ رہی۔ الیکشن ایکٹ برائے 2022ء کے تحت ہر ووٹ دہندہ کو ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل عملہ کو اپنا شناختی کارڈ دکھانا لازم تھا مگر ہدایات کے باوجود بیشتر ووٹرز اپنا شناختی کارڈ ساتھ لانا بھول گئے جنہیں دوبارہ شناختی کارڈ دکھانے پر ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔ سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپنا ووٹ کاسٹ کرنے مقامی پولنگ سٹیشن پہنچے مگر اپنا شناختی کارڈ عملے کو پیش نہ کر سکے کہ کارڈ وہ گھر بھول آئے تھے۔ ہاتھ میں پکڑے ایک میگزین میں جس میں انکی مبینہ طور پر تصویر تھی‘ بطور شناخت انہوں نے عملے کو دکھانا چاہی مگر پولنگ سٹیشن عملے نے انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ووٹ کاسٹنگ کیلئے پاسپورٹ‘ بس پاس یا پھر ڈرائیونگ لائسنس کی شناخت لازمی تھی۔ اس لئے بورس جانسن مبینہ طور پر دوبارہ گھر گئے اور اپنا شناختی کارڈ دکھانے کے بعد ووٹ کاسٹ کرنے کی انہیں اجازت دی گئی۔ جس پر سابق وزیراعظم نے پولنگ سٹیشن عملے کی اعلیٰ کارکردگی اور قانون کا احترام کرنے پر انہیں مبارک باد دیتے ہوئے انکے فرائض کی تعریف کی۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ 2022ء میں شناختی کارڈ کا ایوان میں جب بل منظور ہوا تو بورس جانسن اس وقت برطانوی وزیراعظم تھے۔ 
شناخت کے بغیر ووٹ کاسٹ کرنے کا دوسرا واقعہ ایک برطانوی ریٹائرڈ فوجی آفیسر کے ساتھ پیش آیا جس نے برطانوی افواج میں 27 برس تک عسکری خدمات سرانجام دیں۔ یہ افسر بھی اپنا حقیقی شناختی کارڈ گھر بھول آیا اور ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے اس نے اپنا Card  Vetern دکھایا جسے عملے نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یوں مذکورہ افسر کو بھی اصلی شناختی کارڈ دکھانے کے بعد ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اب جس روز سے میں نے یہ مناظر دیکھے ہیں‘ برطانوی اور اپنی 76 سالہ پاکستانی جمہوریت کا فرق نمایاں طور پر سامنے آگیا ہے۔ آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ہماری جمہوریت میں کسی سابق وزیراعظم یا سابق اعلیٰ فوجی افسر کو پولنگ سٹیشن پر مامور عملے نے درست شناخت نہ کروانے پر ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دینے سے اگر انکار کیا ہوتا تو اس عملے کی ملازمت کا مستقبل کیا ہوتا؟؟ یہی بنیادی فرق ہے ہماری اور برطانوی جمہوریت میں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...