سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کو ناکام بنائیں

May 23, 2024

رحمت خان وردگ

خبریں دیکھ کر دل بہت دکھی ہوتا ہے جس میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو اداروں‘ عدلیہ پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ طریقہ کار کسی طور بھی درست نہیں۔ آئین میں ہر ادارے کے حقوق و فرائض طے ہیں اور اگر کچھ چیزیں رہ گئی تھیں تو انہیں اب بالکل درست انداز میں طے کیا جانا چاہئے اور یہ سب کچھ پارلیمنٹ میں موجود لوگوں نے ہی کرنا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود لوگ خود ہی اداروں اور عدلیہ پر بلاجواز تنقید کرتے ہیں جبکہ اس کے حل کی جانب کوئی بھی پیشرفت کرنے کو تیار نہیں۔ ایک تو عدالتی کارروائی کے براہ راست نشر ہونے سے بھی معزز جج صاحبان کا سوشل میڈیا ٹرائل بڑھا ہے اور عدالتی سماعت میں ہونے والی گفتگو کو بہت بڑی خبر کی شکل دیکر ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا کردینے سے بھی معاشرے میں ہیجانی کیفیت بڑھی ہے۔ اس معاملے پر معزز جج صاحبان کو دیکھنا چاہئے کہ براہ راست عدالتی کارروائی نشر کرنے سے کس قدر فوائد حاصل ہوئے ہیں اور کس قدر نقصان ہوا ہے؟ 
گزشتہ دنوں 4-5افراد نے معزز جج صاحبان کے خلاف میڈیا بیانات دیئے جس پر 2کو ازخودنوٹس لیکر سپریم کورٹ نے طلب بھی کیا ہے۔ اس ماحول کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ عدالتوں میں بھی کسی ایک سرکاری افسر کا نام لیکر معاملات چلانے کے بجائے پورے ادارے کا نام لیا جانا اور پھر اس کے ٹیلی ویژن پر ٹکرز چل جانا‘ یہ سب اسباب ہیں کہ اداروں اور عدلیہ پر تنقید کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ماحول سے دشمن ملک بھارت پورا فائدہ اٹھاکر اپنے تمام ٹیلی ویژن چینلز پربڑھا چڑھا کر تنقید کرتا ہے۔ کیبل پر انڈین چینلز بند کئے جانے کے باوجود انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں حدود کی کوئی قید نہیں رہی اور ہر غلط و صحیح بات عام آدمی تک پہنچ جاتی ہے۔ عام آدمی اس کی تصدیق کرنے کے بجائے اندھا دھند اس کو درست سمجھ بیٹھتا ہے اور مزید لوگوں کو بھیج کر معاشرے میں بے چینی کی لہر پیداکرنے کا سبب بنتا ہے حالانکہ یہ سوچ و شعور ہی عام آدمی میں نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے اداروں اور عدلیہ پر تنقید سے ملک مضبوط ہوگا یا کمزور؟
یہاں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے طرز عمل کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو 4لاشیں ملیں لیکن انہوں نے نام لیکر جنرل ضیاء الحق کے خلاف بات کی اور کبھی بھی پورے ادارے کو نہ تو بدنام کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ایسا کوئی بیان دیا جس سے ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جائے بلکہ بی بی کی شہادت پر صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاکر حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ ایسی پارٹی جس کو سیاست کے باعث 4لاشیں ملی ہوں اور وہ پھر بھی اداروں کی بطور مجموعی مخالفت کے بجائے ایسا کرنے والے مخصوص افراد کے نام لیکر تنقید تک محدود رہی جبکہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کا اس معاملے میں کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اداروں کی جانب سے کس جماعت کو سب سے زیادہ حمایت ملی اور پھر اس کا بدلہ کیا لیا جارہا ہے‘ یہ سب کچھ سب کے سامنے ہے۔
اب نیا سلسلہ شروع ہے کہ شاعری میں براہ راست ہدف بناکر پورے ادارے کو بدنام کرنے کی شاعری کا آغاز ہوا ہے اور ایسی بیہودہ شاعری کہ جسے بھارت نے منٹوں سیکنڈوں میں کہاں سے کہاں تک پہنچاکر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے ملک کے عوام اور اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے صرف اور صرف ملک سے غداری کے مرتکب ہوتے  ہیں اور دشمنوں کے آلہ کار بنتے ہیں۔ اس طرح کے سنگین جرائم پر ایکشن لینا اداروں کا حق ہے۔ اس معاملے میں عدلیہ سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ ملک کے دفاع و سلامتی کے معاملات کو بھی مدنظر رکھ کر معاملات کو دیکھیں کیونکہ راتوں رات مشہور ہونے کے لئے اب بیہودگی کا سہارا لیکر وائرل ہونے کی دوڑ چل رہی ہے۔ اسی لئے شاعری میں بھی نئے ٹرینڈ کا آغاز کرنے کی کوشش ہے کہ جس سے راتوں رات وائرل ہوسکیں۔ اس طرز کی شاعری کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور نہ ہی دی جاسکتی ہے۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ شمار ہوتا ہے اور اس سلسلے میں محتاط طرز عمل کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دشمن ممالک کے بے بنیاد اور زہریلے پروپیگنڈے کا شکار ہونے سے کیسے بچاجاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ تو سربراہان مملکت اور سیاستدانوں نے کرنا ہے جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں لیکن بہت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ سیاستدان خود اس طرح کے کام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اور بات کرتے ہیں جبکہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد اور بات کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا اور قومی سلامتی کے اہم ترین امور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرکے سوشل میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈے کا مل کر توڑ نکالنا ہوگا۔ اسی طرح کا ماحول نہیں چلنا چاہئے اور اس سلسلے میں سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ جہاں کہیں جس جس نے اپنی اصلاح کرنی ہے خدارا اپنی اصلاح کرے اور ضد و انا کو لیکر قومی سلامتی کے امور کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس معاملے میں سب کا فرض بنتا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اچھی طرح سمجھ بوجھ سے کام لے۔ اسی طرح عدلیہ کے وقار کو بھی قائم رکھنا سب اداروں کی ملکر ذمہ داری بنتی ہے اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام لیں۔

مزیدخبریں