شاہ بریندرا۔ سامان سو برس کا

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
 بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن نے مستقبل کے کیا کیا خاکے نہ بنائے ہوں گے اور کیا کیا خواب نہ سجائے ہوں گے۔ بنگالی اس کی شخصیت سے دھوکہ کھا گئے۔ اسے نجات دہندہ اور اوتار سمجھ لیا۔ اہلیت اتنی کہ دو سالہ دورِ اقتدار میں ملک بدترین قحط سے دوچار ہوگیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو ان کی اپنی فوج نے رات کو جگایا اور گھر کی دہلیز پر لا کر مار ڈالا تھا۔آج کی وزیر اعظم حسینہ واجد خاندان کی وہ واحد فرد ہیں جو بیرون ملک ہونے کے باعث زندہ بچ گئیں۔ مجیب الرحمن 15اگست1975ء کو مارے گئے۔ یہ پاکستان اور بھارت کا یوم آزادی کا دن ہے۔ شیخ کی عمر اس وقت55سال اور وہ صرف اڑھائی سال اقتدار میں رہے۔ انہیں اپنے اقتدار کی قلیل مدتی اور انجام کا معلوم ہوتا تو  پاکستان کو دو لخت کرنے کے راستے پر گامزن نہ ہوتے۔وہ تیس سالہ منصوبے بنائے ہوئے تھے۔مگر۔۔۔۔۔ پل کی خبر نہیں۔
نیپال کے شاہ بریندرا یکم جون کی رات 9 بجے اپنے بیٹے دپیندرا کے ہاتھوں پورے خاندان سمیت مارے گئے۔ ان کے بھی مستقبل کے بڑے پلان تھے مگر سامان سو برس کا۔ ان کا یہ بیٹا ولی عہد سلطنت و مملکت بھی تھا۔ جس نے فلمی انداز میں 9 لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا اور آخری و  دسواں وہ خود تھا جس نے خودکشی کر لی۔
دپیندرا اپنی گرل فرینڈ دیویانی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ملکہ ایشوریا نہ مانیں توآٹو گن اٹھا لی۔ شاہی محل میں جو جہاں نظر آیا اسے اڑا دیا۔ان کے چچا پرنس گیاندرا کٹھمنڈو میں موجود نہیں تھے۔ ان کی اہلیہ کومل جو ملکہ ایشوریا کی بہن تھیں وہ بھی گولیوں کا نشانہ بنیں مگر شدید زخمی ہونے کے باوجود بچ گئیں۔ گیاندر آج بھی نیپال کے بادشاہ ہیں اور کومل ملکہ ہیں۔
یکم جون کی رات کے پہلے پہر جب دپیندرا کے سر خون سوار تھا۔ شاہی خاندان کے کئی بچوں نے بیڈز اور میزوں کے نیچے چھپ کر جان بچائی۔ کئی ایک نے زندگی کی بھیک مانگی مگر دپندرا نے سوائے ایک کے کسی کی نہ سنی۔ جس کی سنی وہ گیاندرا کا بیٹا پارس تھا۔ اسے گڑگڑاتے دیکھ کر زندہ چھوڑ دیا۔ جو آج نیپال کا ولی عہد ہے۔ اس کی بھی کوئی پلاننگ ہوگی بیسیوں برسوں کی مگر پل کی خبر نہیں۔
   شاہ بریندرا کے خاندان کا خاتمہ ہوگیا جبکہ شاہ گیاندرا کا خاندان اتفاق سے مکمل رہا۔ ان کو عارضی طور پر زمام  اقتدار سونپی گئی تھی۔ بس ایک بار اقتدار کی رکاب میں پاؤں آنا تھا  طاقت اور اختیارات کا گھوڑا سرپٹ دوڑتا چلا گیا۔ عمر رسیدہ بھی کئی سال کی پلاننگ کئے ہوئے ہیں مگرسامان سو برس کا۔۔۔۔
اب ایک جائزہ لیتے ہیں نیپال کی سیاست بادشاہی اور جمہوریت  کے نشیب و فراز کا، کبھی وہاں جمہوریت اور کبھی شاہی  حاوی رہی۔ بی بی کی تحقیق کے مطابق اٹھارہ سو ستاون میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں نیپالی بادشاہ نے انگریزوں کی مدد کی جس کے عوض کچھ علاقے انگریزوں نے نیپال کو واپس کر دیے۔شاہ خاندان کی عملی اور موثر بادشاہت کا دور اٹھارہ سو چھیالیس تک جاری رہا جب ایک سپہ سالار، جنگ بہادر رانا نے کھٹمنڈو کے کوٹ فوجی مرکز کے قتل عام کے بعد وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس قتل عام میں نیپال کی اہم شخصیتیں اور متعدد سپہ سالار مارے گئے تھے۔یہ آغاز تھا نیپال میں رانا وزراء  اعظم کی حکمرانی کے دور کا جو بادشاہ سے بھی زیادہ بااختیار اور طاقت ور تھے۔ بادشاہ محض کٹھ پتلی بن کر رہ گیا تھا۔ نیپال میں رانا وزرائیاعظم کی آمریت کا دور ایک صدی سے بھی زیادہ رہا۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد  انیس سو پچاس میں ہندوستان کی حکمران کانگریس پارٹی کی مدد سے نیپال میں بی پی کوئیرالا کی قیادت میں نیپالی کانگریس پارٹی قائم ہوئی جس نے راناؤں کے خلاف عسکری تحریک چلائی اور آخر کار ملک کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر کے راناؤں کا دور ختم کر دیا گیا لہٰذا نیپالی کانگریس نے عبوری جمہوری حکومت قائم کی لیکن یہ جمہوری حکومت زیادہ دیر تک نہ چل سکی- شاہ تریبھوں کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شاہ مہندرا تخت پر بیٹھے جنہوں نے انیس سو ساٹھ میں پوری کابینہ کو گرفتار کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا-شاہ مہندرا نے پارلیمانی نظام کی جگہ سیاسی جماعتوں کے بغیر پنچایتی نظام قائم کیا جس میں عملی طور پر تمام اختیارات بادشاہ کو حاصل تھے۔ بادشاہ براہ راست وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو مقرر کرتا تھا۔ انیس سو بہتر میں شاہ مہندرا کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شاہ بریندرا تخت پر بیٹھے۔ اس وقت تک عوام آمرانہ پنچایتی نظام سے اتنے بدظن ہو گئے کہ اس کے خلاف ناراضگی کا لاوا  انیس سو اناسی میں آتش فشاں کی طرح خونریز فسادات کی صورت میں پھٹ پڑا۔ اس سیل رواں پر قابو پانے کے لئے شاہ بریندرا نے پنچایتی نظام اور سیاسی جماعتوں کے نظام کے درمیان فیصلہ کے لئے ریفرنڈم کرایا جس میں ہمارے جنرل ضیا اور جنرل  مشرف کے ریفرنڈموں  کی طرح جادو کی چھڑی گھومی اور پنچایت کے حق میں فیصلہ کیا گیا-اس فیصلہ کے خلاف عوام نے جن اندولن کے نام سے بڑے پیمانہ پر تحریک چلائی اور آخر کار شاہ بریندرا کو اپنی کابینہ توڑ نی پڑی، سیاسی جماعتوں کو قانونی قرار دینا پڑا اور حزب مخالف کو عبوری حکومت کی تشکیل کی پیشکش کرنی پڑی-
 مئی انیس سو اکیانوے کے عام انتخابات میں بیشتر ووٹ نیپالی کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کو ملے اور نیپال نے جمہوریت کا سفر پھر شروع کیا،لیکن یہ سفر  دو ہزار ایک میں شاہی محل میں ولی عہد دیپندرا کے ہاتھوں بادشاہ اور ملکہ کے قتل اور پھر خود کشی کے بعد رک گیا- آج کے شاہ گیانندرا کو طاقتور راناؤں نے پچاس سال قبل جب ان کی عمر چار سال تھی ان کے دادا شاہ تریبھون کے ہندوستان فرار ہونے کے بعد بادشاہ بنایا تھا لیکن اس وقت نیپال کے عوام نے انہیں بادشاہ تسلیم نہیں کیا تھا۔مگر آج وہ مکمل اقتدار و اختیار کے جبری مالک ہیں مگر کب تک؟ سامان برس کا پل کی خبر نہیں۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن