پنجاب یونیورسٹی کا جدید نو آبادیاتی نظام 

پنجاب یونیورسٹی پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ہے۔ 1882ء میں قائم ہونے والی یہ یونیورسٹی اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ بھی ہے۔ یہ یونیورسٹی صرف ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ مثبت روایات کا ایک عظیم مرکز بھی ہے۔ ان روایات کی پاسداری ادارے سے وابستہ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس ادارے کے ذمہ داران کی غلط پالیسیاں اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی اس وقت مسائل کا گڑھ بن چکی ہے اور یہ مسائل وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تقریباً دو سال سے یونیورسٹی کا مستقل سربراہ ہی موجود نہیں۔ پہلے تین تین مہینے کے لیے مختلف افراد کو عبوری بنیاد پر سربراہی دی جاتی رہی اور اب ایک سال سے زائد عرصے سے پرو وائس چانسلر قائم مقام رئیس جامعہ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ غیر مستقل طور پر جب کسی شخص کو ایسی اہم ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس دوران وہ اپنے لیے اور اپنے عزیز و اقارب کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدے سمیٹ لے۔ ادارے کی بہتری سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
جامعہ پنجاب کے کچھ مسائل تو وہ ہیں جو یونیورسٹی کے اندر موجود لوگوں یعنی اساتذہ اور دیگر ملازمین کے لیے ہیں۔ ایسے مسائل عام طور پر تو ایک خاص دائرے تک محدود ہوتے ہیں لیکن ان کا اثر اس دائرے سے باہر بھی محسوس ہوتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ پریشانی کا باعث وہ مسائل بن رہے ہیں جن کا تعلق ان ہزاروں افراد سے ہے جو براہِ راست یونیورسٹی کے ملازم یا طلبہ نہیں ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے الحاق شدہ کالجوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو وسطی پنجاب کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کالجوں میں سینکڑوں ایسے اساتذہ پڑھا رہے ہیں اور ہزاروں ایسے طلبہ پڑھ رہے ہیں جو یونیورسٹی کی پالیسیوں سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اس بارے میں وہ شکایت بھی کریں تو کس سے کریں کہ یونیورسٹی کا مستقل سربراہ ہی موجود نہیں اور جو ہیں انھیں شاید ان مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں کیونکہ ان کی ساری توجہ یونیورسٹی کے اندر اپنے اور اپنے دوستوں کے مفادات کے تحفظ پر صرف ہورہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ الحاق شدہ کالج یونیورسٹی کی آمدنی کا بڑا اور اہم ذریعہ ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو ان کالجوں کو یونیورسٹی کی ضرورت کم ہے اور یونیورسٹی کو ان کالجوں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کالجوں اور ان سے وابستہ افراد کے مسائل حل کرنے پر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ان دنوں جس اہم مسئلے کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق شدہ کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کی طرف سے جو شیڈول جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق 23مئی سے نئے سمسٹرز کی کلاسیں شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کالجوں کو نئے سمسٹرز شروع کرنے کا حکم دینے کے بعد یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں 17 جون سے لے کر 30 اگست تک موسم گرما کی تعطیلات ہوں گی، یعنی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ تو گھروں میں بیٹھیں گے لیکن الحاق شدہ کالجوں کے استادوں اور طلبہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شدید گرمی کے ان مہینوں کے دوران سمسٹرز مکمل کریں جن کے امتحانات ستمبر کے آغاز میں ہوں گے۔
جب تک بی اے اور ایم اے ہوتا تھا تب تک اصول یہ تھا کہ یونیورسٹی کے اپنے طلبہ، الحاق شدہ کالجوں کے طلبہ اور نجی حیثیت میں امتحان دینے والے امیدوار، سب ایک ہی شیڈول کے مطابق ایک ہی نصاب کو سامنے رکھ کر پرچے دیتے تھے۔ لیکن جب سے نیا نظام نافذ کیا گیا ہے تب سے طلبہ کے تین الگ الگ درجے بن چکے ہیں، یعنی یونیورسٹی کا شیڈول الگ ہے، الحاق شدہ کالجوں کا الگ ہے اور نجی امیدواروں کے لیے الگ۔ اسی طرح نصابات بھی مختلف نوعیت کے ہیں، اسی لیے یونیورسٹی کے طلبہ کے پرچے الگ ہوتے ہیں، الحاق شدہ کالجوں کے طلبہ کے الگ اور پرائیویٹ امیدواروں کے الگ۔ یونیورسٹی میں طلبہ 35نمبر کا وسط مدتی امتحان یا مڈ ٹرم ایگزام دیتے ہیں، 25 نمبر کے سیشنل مارکس ہوتے ہیں اور 40 نمبر کا حتمی امتحان یا فائنل ایگزام، جو وہی استاد لیتے ہیں جو اس کلاس کو پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ یوں سارا اختیار یونیورسٹی کے اساتذہ کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے جس طالب علم یا طالبہ کو جتنے چاہیں نمبر دے سکتے ہیں۔
الحاق شدہ کالجوں کا معاملہ الگ ہے۔ وہاں 25 نمبر کا وسط مدتی امتحان ہوتا ہے، 15نمبر سیشنل مارکس کے ذمرے کے لیے مختص ہیں اور 60 نمبر کا حتمی امتحان یونیورسٹی نے لینا ہوتا ہے۔ نجی امیدواروں کو 100 نمبر کا پورا امتحان فائنل ایگزام کے طور پر دینا ہوتا ہے۔ اس درجہ بندی کی وجہ سے یہ افسوس ناک صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ الحاق شدہ کالجوں کے نہایت لائق طالب علم پوری محنت کر کے بھی یونیورسٹی کے معمولی سے طلبہ کے برابر نمبر حاصل نہیں کر پاتے۔ پرائیویٹ امیدواروں کا حال اس سے بھی برا ہوتا ہے۔ یہ ایک نئی قسم کا نو آبادیاتی نظام ہے جو ایسے سنگین مسائل پیدا کررہا ہے جو آگے چل کر مزید مسائل کو جنم دیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ اتنا بگاڑ پیدا ہو جائے گا کہ اس کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس نہایت اہم مسئلے کی طرف فوری توجہ دے اور اسی سطح پر معاملات کو سدھارنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم بہت سا وقت گزار کر جب ہوش میں آئیں تو پانی سروں کے اوپر سے گزر چکا ہو اور پھر ہم چاہ کر بھی مسائل کو حل نہ کرسکیں۔

مشفق لولابی--- سماج دوست

ای پیپر دی نیشن