ہر ادارہ آئینی حدود میں رہے، ٹکراؤ کسی کے مفاد میں نہیں: وزیر قانون

اسلام آباد (خبرنگار) ایوان بالا کو وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے  بتایا ہے کہ اداروں کے ساتھ ٹکرائو کسی کے مفاد میں نہیں ہے، ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اور ہم سے بھی غلطیاں ہورہی ہیں تاہم ملک کی بہتری کیلئے مل کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ بدھ کے روز ایوان بالا میں سینیٹر فیصل واوڈا کو ملنے والے توہین عدالت کے نوٹس پر بات کرتے ہوئے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اس واقعہ کی انکوائری ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فیصل واوڈا نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے عوام کے لاکھوں اور ہزاروں ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین اور ان اراکین کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سینیٹرز کے خلاف توہین عدالت کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا پر اراکین اسمبلی اور سیاستدانوں کی جو پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اس کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں سلیکٹو انصاف تو ہوتا ہے، اسی طرح توہین عدالت میں بھی اسی طرح کی سلیکشن کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی محترم سینیٹر کو پراکسی قرار دینا درست نہیں ہے۔ آئین عدلیہ نے تبدیل کیا۔ انہوں نے کہاکہ اگر اس طرح کا انصاف ہوگا تو لوگ آواز اٹھائیں گے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر کیوں جاری نہیں ہورہے ہیں، کیا اس کی توقیر یا عزت نہیں ہے، اس پر ایوان میں بات کیوں نہیں کی جاتی ہے،  مجھے بتایا جائے کہ جب ہماری پارٹی کو جھنڈا لہرانے کی اجازت نہیں تھی اور جلسہ کرنے کی اجازت نہیں تھی تو کیوں آواز نہیں اٹھائی گئی،  اسی طرح پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ زیادتیوں پر بات کیوں نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تمام لوگ جانتے ہیں جو باضمیر ہیں کہ عمران خان سب سے مشہور لیڈر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس ایوان میں ذاتی ایجنڈے کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اس ایوان میں ایک قرارداد منظور ہوئی تھی کہ انتخابات میں تاخیر کی جائے، یہ قرارداد کیوں لائی گئی، ہم نے خود پارلیمنٹ کی عزت اور توقیر کو ختم کیا ہے۔ 32یونیورسٹیوں کے بلز منظور ہوئے مگر کسی نے بات نہیں کی اور وہ یونیورسٹیاں کوڑیوں کے مول فروخت کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر تو بہت ساری پریس کانفرنسز ہوئی ہیں اور صرف ایک ہی شخص کو پراکسی کیوں قرار دیا جارہا ہے۔  سینیٹر طلال چوہدری نے کہاکہ توہین عدا لت کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے اور خاص لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پانامہ کے موقع پر اپنی پارٹی کی جانب سے عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا کو عدالتی کارروائی سے آگاہ کرتا تھا جس پر مجھے توہین عدالت کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہاکہ ایک جلسہ عام میں پی سی او ججز کا ذکر کیا تھا جس پر مجھے توہین عدالت کا نوٹس ملا اور اس پر کوئی بھی میرا وکیل بننے کیلئے تیار نہیں تھا۔  انہوں نے کہاکہ گاڈ فادر، سسیلین مافیا اور پراکسی کے الفاظ کو کوئی بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس نے پیغام بھجوایا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دے دو تو پارلیمنٹ چلے جائو گے مگر میں نے نہیں کیا اور گھر چلا گیا۔  جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ ایوان اور ایوان کے اراکین کی توقیر پر ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے مگر جس طرح سے یہ اجلاس بلایا گیا اس کا مقصد بظاہر ایک ہی تھا جو مسلسل کئی ہفتوں سے نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھ ججز کل بھی نشانے پر تھے اور کچھ ججز آج بھی نشانے پر ہیں۔ سینیٹر علامہ ناصر عباس نے کہاکہ اس ملک میں لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت سنگین ہے مگر بدقسمتی سے ملک میں آئین اور قانون کی عمل داری نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب کیلئے عدل اور انصاف کا تقاضہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک میں 10سے 12ہزار سیاسی قیدی ہیں ایک معزز خاتون کودہشت گردی کے کیسز میں گرفتار کیا گیا ہے یہ ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ظلم و زیادتی کی مذمت کرتے ہیں۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے کہاکہ ایوان کا سب سے کم عمر رکن ہوں اگر کوئی غلط بات کہہ دی تو معافی چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ اجلاس کے ایجنڈے میں تو کچھ اور تھا مگر لگتا ہے کہ اجلاس کو اس خاص مقصد کیلئے بلایا گیا ہے کہ ہم اس ایوان سے عدلیہ اور ججز کو جواب دے دیں۔ انہوں نے کہاکہ آج ایک دفعہ پھر یہ معزز پارلیمان استعمال ہورہا ہے اور جو استعمال کر رہے ہیں، بنگلہ دیش کا مینڈیٹ کیوں تسلیم نہیں کیا گیا اور ملک کو کیوں دولخت کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ بنگلہ دیش میں اتنی مار دھاڑ ہوئی ہے کہ وہ پاکستانیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج ہم پھر اسی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی پر عمل درآمد کیا ہے، ان کو کس طرح ماضی میں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے، وہ تاریخ بھولنی نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ سیاست اگر دل سے کریں تو یہ خدمت بھی ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے اچھی باتیں سیکھنی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایوان میں بات دلیل سے ہوگی تو سب سنیں گے ، آئین کسی بھی جج کو یہ اختیار نہیں دیتا ہے کہ وہ غصے میں کچھ بھی کہہ دے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم کو آئین کے مطابق آزادی حاصل ہے۔ انہوں نے کہاکہ ادارے عوام کی طاقت کے ذریعے بنتے ہیں، ان کی عزت اور توقیر ہم سب کا فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان سپریم ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے بھی قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے ہمیں اپنی اور اپنے ادارے کی عزت اور توقیر کیلئے آئین کے مطابق بولنا چاہیے اور ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ جو ادارے مداخلت کر رہے ہیں ان کیلئے بھی آئین میں طے ہے کہ اپنی حدود میں رہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس ایوان کا ہر رکن محترم ہے اور کسی کے بارے میں کہنا کہ یہ ایجنٹ ہے درست نہیں ہے۔ عدالتیں اپنے فیصلوں کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں رواداری کا ثبوت دینا چاہیے اور آئین کے مطابق چلنا چاہیے اور ہمیں اس ایوان اور کرسی کی توقیر کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ آپ نے بھی غلطیاں کی ہیں اور ہم سے بھی غلطیاں ہورہی ہیں، ہم بھی انسان ہیں۔ ہمیں اپنی معیشت کو بہتر سمت پر لے کر جانا ہوگا اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کیلئے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے بتایا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری شفاف طریقے سے کی جائے گی اور نجکاری کے تمام مراحل براہ راست میڈیا پر دکھائی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت پی آئی اے پر 810ارب روپے کا بوجھ ہے اور حکومت مذید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی ہے ۔بدھ کو ایوان بالا میں پی آئی اے کے حوالے سے توجہ دلائو نوٹس پر بات کرتے ہوئے  سینیٹر قرعۃ العین مری نے کہاکہ پی آئی اے کا جو حال کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اس پر ہمیں زیادہ ملازمین کو طعنہ دیا جاتا ہے جوکہ درست نہیں ہے انہوںنے کہاکہ پی آئی اے کے چھوٹے درجے کے ملازمین پر زیادہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں تاہم منمنٹ کے غلط فیصلوں پر بات نہیں کی جاتی ہے انہوںنے کہاکہ ایک وفاقی وزیر پی آئی اے کے پائلٹس پر الزام عائد کرتے ہیں جس سے پی آئی اے کو مسائل پیش آتے ہیں اور جب یہ الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں تو اس وفاقی وزیر کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے پی آئی اے کو اس نہج تک پہنچانے میں بہت زیادہ محنت کی گئی ہیں اور ہر حکومت اس کی ذمہ دار ہے انہوںنے کہاکہ حکومت کا کام کاروبارکرنا نہیں بلکہ سہولیات فراہم کرنا ہے انہوں نے کہاکہ اس وقت پی آئی اے کا خسارہ 830ارب ہے اور ہمارے پاس طیارے بھی نہیں ہیں وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹر ی اطلاعات پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ملزمان کو جلد گرفتار کر لیا جائے ۔بدھ کے سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رائوف حسن کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں اس کے بیان کے مطابق ایف آئی آر درج کی گئی اور پولیس کی خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی ہے انہوںنے کہاکہ رائوف حسن نے بتایا کہ چند روز قبل بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا جو لوگ بھی اس واقعے میں ملوث ہیں اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی  پورے ملک میں متروکہ وقف املاک پرقبضوں کو ختم کرنے کیلئے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں گے  سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ پورے ملک میں مندروں اور گوردواروں پر قبضے ہیں اور کوئی بھی یہ قبضے نہیں ختم نہیں کرسکتا ہے انہوںنے کہاکہ متروکہ وقف بورڈ کا چیرمین موجود نہیں ہے اور گذشتہ ایک سال سے ایڈیشنل سیکرٹری تما م معاملات چلا رہا ہے اس موقع پر وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور نے کہاکہ ایف آئی اے نے متروکہ وقف املا ک بورڈ کا مستقل چیرمین ہونا بے حد ضروری ہے سینیٹر طاہر سیندھو نے کہاکہ لاہور سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں چرچز اور گوردواروں پر قبضوں کے حوالے سے کئی واقعات ہیں جس پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور نے کہاکہ اگر ایسے واقعات ہیں تو اس حوالے سے متعلقہ افسران کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر اقدامات اٹھائیں  اعظم نذیر تارڑ نے بتایا ہے کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے حوالے سے اقدامات کئے جارہے ہیں اور کامسیٹ یونیورسٹی کے ریکٹر کا تقرر بھی جلد کر لیا جائے گا۔بدھ کو توجہ دلائو نوٹس پر بات کرتے ہوئے سینیٹر ڈاکٹر زرقہ سہروردی نے کہا کہ کامسیٹ یونیورسٹی کے ریکٹر کی تقرری کے حوالے سے میڈیا میں بے ضابطگیوں کی نشاندھی کی گئی تھی انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اس وقت 64یونیورسٹیوں کے مستقل وائس چانسلر اور ریکٹر تعینات نہیں ہیں اور قائمقام افسران سے کام چلایا جارہا ہے انہوںنے کہاکہ یہ ذمہ داری گورنر کی ہوتی ہے انہوںنے کام کیوں نہیں کیا ہے انہوںنے کہاکہ ایچ ای سی کی جانب سے اس حوالے سے گورنرز کو خطوط لکھے گئے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیاگیا ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...