اصغر علی شاد…………امر اجالا
shad_asghar@yahoo.com
یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ پنجاب اسمبلی نے کثرت رائے سے جھوٹی خبروں کے انسداد کے لئے قانون سازی کی ہے اور اس سلسلے میں ہتک عزت قانون کا بل بھی باقاعدہ طور پر منظور ہو چکا ہے۔تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے ایوان میں بل پیش کیا، جس پر صحافیوں نے پریس گیلری سے احتجاجا واک آؤٹ کیا جبکہ اپوزیشن نے بھی اسے مسترد کردیا۔ یاد رہے کہ بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ہوگا جس کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔ بل کا یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس/ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا۔ مبصرین نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر قانون کے تحت کارروائی ہوگی، ہتک عزت کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔بل کے تحت 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہوگا، علاوہ ازیں آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام کی صورت میں ہائی کورٹ کے بنچ کیس سننے کے مجاز ہوں گے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خواتین اور خواجہ سراؤں کو کیس میں قانونی معاونت کیلئے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت میسر ہوگی۔دوسری جانب حکومت نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے بل موخر کرنے کی تجویز مسترد کردی۔ صحافتی تنظیموں نے وزیر اطلاعات پنجاب سے ملاقات میں بل کچھ روز موخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ واضح رہے کہاکثر صحافتی تنظیموں نے اس نئی قانون سازی کی مخالفت کی ہے اور اس بل کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔سنجیدہ حلقوں نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ چند ماہ قبل بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ بلوچستان کے عوام اور حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ اپنے بلوچ بھائیوں کو درپیش تمام مسائل سے نکالا جا سکے اور بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے بلوچستان کے عوام میں ریاست سے متعلق جھوٹا پروپیگنڈہ کیا رہا ہے اور مبصرین کے مطابق اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ تقریبا 6ماہ قبل ممتاز بلوچ رہنما اور کالعدم تنظیم بلوچستان نیشنل آرمی (بی این اے) کے اہم کمانڈر سرفراز بنگلزئی سمیت 70 ساتھیوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور اب یہ سبھی لوگ پوری طرح سے قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔باشعور حلقوں کے مطاق یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ بلوچستان میں عسکریت پسندی ایک پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اس حوالے سے نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں اور اس ضمن میں بھارت،بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور دوسرے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور اسی تناظر میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ ایک اہم اور افسوسناک مسئلہ بن چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس معاملے کی بنیاد مختلف عوامل پر مبنی ہے، جیسے کہ سیاسی تشدد، دہشتگردی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، اور قبائلی تنازعات اور مبالغہ آرائی پر مبنی جھوٹی سچی کہانیاں۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق لاپتہ افراد کے معاملے کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، جیسے کہ حکومتی اور غیر حکومتی دہشتگرد گروہوں کی فعالیت، قبائلی صراعات، یا مختلف مفادات کیلئے لاپتہ افراد کا استعمال۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے بھارت کی مداخلت کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں جو کہ بلوچستان میں انتہاپسند اور انتشاری گروہوں کی حمایت اور ان کی خفیہ تنظیموں کی مددسے متعلق ہیں۔ یہ دستاویزی ثبوت انٹرنیٹ پر ان کی ویڈیوز، ان کے لیڈروں کے بیانات، اور دوسری رپورٹس پر مشتمل ہیں۔ ماہرین کے بقول بھارت کو بھی بلوچستان میں اپنے مفادات کیلئے ایک مستقل دلچسپی ہوسکتی ہے، جیسے کہ ان کے ریجنل اور بین الاقوامی مقاصد کیلئے ایک غیر مستقل اور غیر فعال بلوچستان۔ماہرین نے یاد دلایا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی اور لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت پراسرار اور پیچیدہ ہے۔واضح رہے کہ بلوچستان پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے جو اپنے محل وقوع اور سیکیورٹی کے مسائل کی بنا پر دنیا بھر میں خصوصی توجہ کا حامل ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ رقبے کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے علاوہ ازیں بلوچستان میں معدنی ذخائر بھی بہت بڑی مقدار میں موجود ہیں اور سٹریجٹیک نقطہ نظر سے بھی اس کی اپنی اہمیت ہے۔علاوہ ازیں سی پیک کے قیام سے گوادر جیسی اہم بندر گاہ بھی اسی کا حصہ ہے۔مبصرین کے مطابق یہاں کی دہشتگردی اور لاپتہ افراد کے معاملے مختلف عوامل کی موجودگی کی وجہ سے بڑھتے ہیں۔ اس خطے میں قبائلی گروہوں کے درمیان عرصہ دراز سے مختلف تنازعات موجود ہیں جو اکثر دہشتگردی کی بنیاد بنتے ہیں۔ایک دوسری بڑی وجہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ بلوچستان میں اپنے حقوق سے محروم ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں جس کی بنا پر بھارت اور دیگر کئی قوتیں انہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ایسے میں اعتدال پسند حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تو قع کی جانی چاہیے کہ نہ صرف جعلی خبروں کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں داخلی استحکام کو تقویت ملے گی اور لاپتہ افراد کا مبینہ معاملہ بھی احسن ڈھنگ سے حل ہو پائے گا۔