بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے ایک اسٹیٹ سیکرٹری خارجہ کولن پاول بھی گزرے ہیں ان کی کتاب ’’مائی امریکن جرنی‘‘ بہت زیادہ حقائق لئے ہوئے ہے انہوں نے خلیجی ممالک اور جنوب ایشیائی ممالک کے حکمرانوں کی عادات' انداز سیاست اور خاص کر عالمی دباؤ برداشت کرنے اور ڈھیر ہو جانے جیسی خصوصیات پر بھی بہت کچھ لکھا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کبھی کسی سطح اور کسی شرط پر بھی خطے میں بھارت سمیت کسی کی چوہدارہٹ قبول نہیں کرتے۔ اہل پاکستان بھارت کو صرف مخالف فریق نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سمجھتے ہیں پاکستانی قوم کی خاصیت یہ ہے کہ جب کسی بات کی ٹھان لے تو پھر وہ مشن پورا کرکے ہی ٹلتی ہے۔کولن پاول کے یہ جملے ایٹم بم بنانے اور ایٹمی دھماکوں کے تناظر میں محفوظ ہیں۔28 مئی 1998ء کے دن پاکستان نے انٹرنیشنل پریشر کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کو جواب دیا، 5 بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ 1974ء زمامہ ہے نہ پاکستان وہ پرانے انداز کا حامل ملک ہے۔26 برس قبل سہ پہر کی جن ساعتوں میں پاکستان چاغی (بلوچستان) میں دھماکہ کرکے عالمی ایٹمی کلب کی حدود میں داخل ہوا تو صرف پاکستان میں ہی نہیں 56 اسلامی ریاستوں میں جشن کہ شادیانے بجائے گئے۔ کراچی’ لاہور‘ راولپنڈی’ ملتان’ مظفر آباد‘ گلگت وبلتستان میں لوگ دیوانہ وار خوشی میں جھوم رہے تھے۔ لوگوں کو اس بات سے غرض نہیں تھی کہ اقتدار میں کون سی جماعت ہے انہیں خوشی اس کی تھی کہ پاکستان نے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ والد مرحوم ومغفورڈاکٹر بشیر احمد گورایا بتاتے تھے کہ سقوط ڈھاکہ کے روح کش لمحات میں پاکستان میں شائد کوئی ایسا گھر ہو جو ماتم کناں نہ ہوں اسی طرح 28 مئی 1998ء کو انہوں نے کوئی ایک بندہ ایسا نہیں دیکھا جس کی آنکھیں خوشی سے چمک نہ رہی ہوں۔ یہ اللہ پاک اور اس کے محبوب نبیﷺ کی کرم نوازی تھی کہ ہم نے بہت بڑا سنگ میل عبور کیا۔ والد محترم کہا کرتے تھے کہ اگر قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کو مخلص لیڈر شب مل جاتی تو آج ہم ہرمسائل وسائل کا شکار نہ ہوتے آج حالت یہ ہے کہ پاکستان اندرون اور بیرون ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ مجموعی طورپر یہ قرض 130 ارب ڈالر بتایا جاتا ہے، ریاست کی ملکیت 85 اداروں میں سے اکثر خسارے میں ہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ادارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہے جس کا سالانہ نقصان 170 ارب سے متجاوز ہے۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں (10 ڈسکوز ) ہر سال قومی خزانہ پر 450 ارب روپے کا بوجھ ڈال رہی ہیں۔ وفاقی سطح پر 220 ارب روپے پروٹوکول کی مد میں خرچ ہورہے ہیں۔ان حالات کے ساتھ ہم 21 ویں صدی میں داخل ہورہے ہیں، ایٹمی دھماکوں کے جرأت مندانہ فیصلہ کی طرح کوئی لیڈر شپ معاشی خودمختاری، قرضوں کی واپسی اور قومی کفایت شعاری کے لیے انقلابی اعلانات اور ان پر عمل کرتی توہماری قومی حالت یہ نہ ہوتی!!
مئی… ٹیپو سلطان کے یوم شہادت او ر یوم تکبیر کی یادوں سے مرقع ہے ہمیں یادوں کے چراغ روشن رکھ کر اصل منزل کا تعین اور اس طرف بڑھنے کا ارادہ کرنا چاہیے۔عوام کی خوشی بختی ہے کہ آج مرکز اور صوبے میں مسلم لیگ کی حکومتیں ہیں، ہم میاں برادران سے عرض گزار ہیں کہ وہ آگے بڑھیں ! قومی خودمختاری اور قرضوں کی واپسی کے بارے میں وہ بات کریں جو قوم سننا چاہتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بھارت نے پہلی بار 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ میں ملازمت کر رہے تھے مگر اپنے سینے میں پاکستان کو بھارت کے مقابل نہایت مضبوط کر دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا تو جناب بھٹو نے انہیں وطن واپس آنے کو کہا۔ 1975ء میں ڈاکٹرعبد القدیر خان ہالینڈ میں بھاری تنخواہ چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔حکومت نے کہوٹہ لیبارٹری کا سنگ بنیاد رکھ دیا او رڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پہلی تنخواہ چھ مہینے بعد دی گئی جو صرف تین ہزار تھی۔ خان صاحب نے ملکی مفاد کے لیے قلیل تنخواہ پر کام جاری رکھا ’’امریکی سنٹرل کمانڈ کے سابق کمانڈر جنرل زینی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے صدر بل کلنٹن نے اعلیٰ سطح وفد اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا وزیر دفاع ولیم کو ہن کی زیر قیادت اس وفد میں اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کارل انڈر فرتھ اور جنرل زینی بھی تھے۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے وفد کو پاکستان کی سر زمین پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سنٹرل کمانڈ کابوئنگ707ٹمپا کے ہوائی اڈے پر تیار کھڑا تھا امریکیوں کے بار بار رابطے کے باوجود پاکستان نے اجازت نہ دی۔ بڑی جہدوجہد اور 22گھنٹے کی پرواز کے بعد پاکستان پہنچے۔وفد نے وزیراعظم نواز شریف سے متعدد ملاقاتیں کیں لیکن ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی بات نہ منوا سکے‘‘۔ بلاشبہ ماں صاحب نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر قوت بنایا، چین کی طرف سے55ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کی گئی، امن و امان قائم کیا، دہشت گردی کا خاتمہ کیا، موٹر ویز کا جا ل بچھایا، اندھیروں کا خاتمہ کیا، ملک کی معیشت کو مستحکم کیا، معاشی بحران کا خاتمہ کیا۔ قوم اپنے ہیروز کی یاد تازہ کرنے کیلئے 28مئی کا تاریخ ساز دن مناتی ہے، ملک کو اس وقت سنگین معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو کردار ادا کرنا چاہیے پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے!!