کرن عزیز کشمیری
آزاد کشمیر میں حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی منظوری سے متعلق معاہدہ طے پایا گیا۔اس سلسلے میں 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک پرامن قوم اپنے جائز حق کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلی تو جانوں کا ضیاع ہوا۔ یہ المیہ ہے کہ ہمارے حکمران بے بسی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔اور جب عوام جگانے کی کوشش کرتی ہے تو بلند و بانگ دعوے وعدوں سے ان کا دل بہلائے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ احتجاج ختم کرانے کے لیے زبانی جمع خرچ کیا گیا ہو۔ واضح رہے کہ آزاد کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ کی سروس بھی متاثر ہے۔ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے لیے ریلیف پیکج احسان نہیں بلکہ فرض ہے۔ یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے کہ معصوم لوگوں کی جانوں کے ضیاع کے بعد فرائض کی تکمیل کیوں کی جاتی ہے۔ افسوس صدا افسوس کہ ہم ایک ایسے مقام تک آ پہنچے ہیں جہاں دنیا کے سامنے جگ ہنسائی کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ احتجاج ختم ہونے کے باوجود انٹرنیٹ سروس کس خوف سے اب تک بحال نہیں کی گئی؟ ایک خبر کے مطابق عوامی غیض و غضب سے بچنے کے لیے وزراء سرکاری کے بجائے پرائیویٹ گاڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس حال تک اسی صورت پہنچا جاتا ہے جب اپنے عہدوں کا جائز استعمال نہیں کیا جاتا ،کارکردگی اہم ہے ،اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب عوام کی عدالت میں حاضری لگتی ہے۔ حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ سوال تو کیا جائے گا، مطالبات درست ہے۔ کشمیر میں ہونے والی خون ریزی سے قبل کیوں پورے نہیں ہوئے۔ عوام گرفتار ہو کر اور جانے دے کر اپنا حق حاصل کریں
گے ؟ان تمام واقعات کے بعد یہ امر طے ہے کہ وزرا کا سیاسی مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ پہاڑوں میں رہنے والی عوام کو سہولیات میسر نہیں۔عوام مشکلات کا شکار ہیں۔ حکمران ان کے مسائل کب حل کریں گے یا پھر الیکشن قریب آتے ہی ایک نئے چہرے کے ساتھ پرانے وعدوں کی ٹوکری اٹھائے اس وقت انہیں یاد کیا جائے گا۔ آزاد کشمیر میں سیاسی جوڑ توڑ اور برادری ازم عروج پر رہا ،تاہم مسائل کے حل اور ترقی کے لیے بے حس حکمرانوں نے کبھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ اس ضمن میں زبانی جمع خرچ سے کام لیا گیا۔عملی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام کردار یاد رکھتی ہے چہرے نہیں۔ اب ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ صفر کارکردگی پر دوبارہ اقتدار ملے۔ آزاد کشمیر میں مہنگائی کے لیے کیے گئے احتجاج کو کوئی دوسرا رنگ دینا سیاسی کھیل کا تو حصہ ہو سکتا ہے حقائق مسخ نہیں کر سکتا۔ فیصلہ کن گھڑی ہے کہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ دوسری صورت سیاست دانوں کی غلطیوں کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ خیبر سے کشمیر تک عوام مہنگائی اور لوشیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہیں۔ غریب عوام کے بجائے مراعات یافتہ طبقے پر بوجھ ڈالا جائے۔عوام کو ان کے جائز حقوق نہ دئیے گئے تو جو سلسلہ تھم چکا ہے دوبارہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ اب کہ عوام کی قوت برداشت ختم ہے۔ مہنگائی ختم کرنے کے لیے حکومت کو اپنی ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔عوام پر ڈالا بوجھ کم کرنا ہوگا۔ کشمیر میں جتنی مہنگائی ہے اس کے مقابلے میں آمدن میں کافی فرق ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے کشمیری عوام اذیت سے دوچار اپنی سیاستدانوں پر لازم ہے کہ پرامن اور قانون کی پابند لوگوں کے ساتھ جائز طریقے سے بات کی جائے۔ عوامی احتجاج کے دوران پیش انے والے واقعات انتہائی افسوسناک تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی نوبت نہ آنے دیں کہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار استعمال کرنا پڑ جائے۔ دوسری یہ حالات واقعات حکمرانوں کے لیے سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ امر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اپنی کارکردگی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے تو انہیں کنٹرول کرنا ایک مشکل امر ہے۔ عوام برداشت جیسا ماحول عوام کو ورثے میں دیا گیا ہے۔ مظاہروں کے دوران دیکھی جانے والی تشدد کی کاروائیاں لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے حالات واقعات نہ صرف ہمارے لیے بلکہ بھارت اس صورتحال سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا نے ان واقعات کو منفی رنگ دے کر مذموم پروپیگنڈے کا نشانہ بنانے کی گھنائونی کوشش کی ہے۔