چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدلیہ سے قوم نے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ ان پر مکمل طور پر پورا اتر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں قوم کو ان سے بہت سے امیدیں ہیں دوسری طرف حکومت نے ان کو بادل نخواستہ بحال کیا یا کام کرنے کی اجازت دی۔ یوں سمجھئے کہ وہ تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں۔ وہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتے کہ فیصلے کسی مخاصمت کی بنا پر ہو رہے۔ ایک طرف ان کی مثبت سوچ کارفرما ہے دوسری طرف حکومت عدلیہ سے تعاون کرتی نظر نہیں آتی۔ بلکہ نہ صرف تعاون نہیں کیا جا رہا بلکہ بعض عدالتی معاملات کی راہ میں روڑے بھی اٹکائے جا رہے ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔
آج حکومت کے بارے میں کرپشن اور کمشن کا نت نئے روز ایک سے بڑھ کر ایک سکینڈل سامنے آرہا ہے۔ کئی وزیروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ڈوگر کورٹ سے مرضی کا فیصلہ کرانے کیلئے کروڑوں روپے وصول کئے ڈوگر صاحب چلتے بنے اب فیصلہ میرٹ پر ہو گا وزیر صاحبان دیکھیں کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں گذشتہ سال کی نسبت 5 درجے اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال پاکستان بدعنوانیوں کے حوالے سے 47 ویں نمبر پر تھا اب 42 نمبر پر آگیا ہے کہیں کوئی معاملہ صاف اور شفاف نظر نہیں آتا۔ حکومت کی نظروں میں عدلیہ اور میڈیا کھٹکتے ہیں۔ میڈیا کرپشن سامنے لاتا ہے تو عدلیہ عوامی مسائل حل کرنے پر زور دیتی ہے۔
سپریم کورٹ نے تیل قیمتوں میں اندھا دھند منافع پر نوٹس لیتے ہوئے جسٹس رانا بھگوان داس کی سربراہی میں کمشن قائم کیا مہینوں کی محنت کے بعد اس کی سفارشات پر عدالت عظمیٰ نے ناجائز طور پر لگایا گیا ٹیکس واپس لیا حکومت نے ایک دن کے وقفے سے یہ نئے نام سے نافذ کر دیا۔ یہ ایک قسم کا توہین اور تضحیک آمیز اقدام تھا۔ لیکن عدلیہ نے محض اس لئے فوری ایکشن نہ لیا کہ اسے غلط معنوں میں لیا جائے گا۔ تین ماہ عدلیہ نے حکومتی اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے بالآخر کمپنیوں کے اربوں روپے منافع کمانے کا نوٹس لیا ہے۔ یقیناً فیصلہ ملکی قومی و عوامی مفاد میں ہو گا۔
وہ چینی جو تیار ہونے کے بعد ملز نے 28 روپے کلو میں فروخت کر دی تھی۔ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھیں تو ہمارے ہاں جن کے پاس ٹی سی پی نے چینی امانتاً گوداموں میں رکھی تھی وہ راتوں رات ذخیرہ اندوز بن گئے۔ چند وزیروں نے ان کا ساتھ دیا۔ 28 روپے کلو والی چینی کی قیمت یکدم 52 روپے کلو مقرر کر دی گئی۔ عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے 40 روپے کلو مقرر کی تو وفاقی وزراءنے تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور کہا عدالت خود قیمت پر عملدرآمد کرائے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے نمائندے عدالت میں طلب کئے گئے۔ انہوں نے 40 روپے مارکیٹ میں فروخت کا سینے پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا لیکن چینی اب کسی بھی قیمت دستیاب نہیں ہے۔ آخر ایسوسی ایشن کس کے بل بوتے پر عدلیہ کا مذاق اڑا رہی ہے۔ عدالت کو نوٹس تو لینا پڑے گا۔ یہ حکومت کے کرنے کے کام ہیں لیکن وہ کام بگاڑ رہی ہے۔ یہ عوام میں خود اپنی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ عوام خوش تھے کہ آمریت سے جان چھوٹی اب جمہوریت کا دور دورہ ہے لیکن جمہوری حکومت توقعات پر پورا نہیں اتر رہی، یہ افسوسناک ہے۔ جب جمہوری حکومت عوامی توقعات پر پورا نہ اترے بلکہ عوام کش اقدامات بھی کئے جائیں تو ایسی حکومت کا بوریا بستر لپٹنے میں دیر نہیں لگتی۔