کیا خوب استدلال سامنے لائے ہیں کہ این آر او سے مستفید ہونے والے آٹھ ہزار سے زائد ”معززین“ میں صرف 34 سیاستدان شامل ہیں جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ کیا پانی کو گدلا کرنے کیلئے کسی ایک نجاست کا اس میں پھینکا جانا کافی نہیں ہوتا اور کیا گندگی کے صرف ایک بھبکے سے پورے ماحول کی فضا بدبودار نہیں ہوجاتی؟ اور پھر اگر لیڈر ہی کرپٹ ہو تو پھر سسٹم میں دیانت کی کیا درگت بنے گی اور کرپشن کے تالاب میں ڈبکیاں لگانے کیلئے دوسروں کے دل کیوں نہیں للچائیں گے۔
پھر جناب! یہ کیا استدلال ہے کہ این آر او سے فائدہ تو تین درجن سیاستدانوں نے اٹھایا مگر پوری سیاست اور تمام سیاستدان بدنام ہورہے ہیں۔ اگر سسٹم کی اصلاح کے ذمہ داروں کے ہاتھوں ہی سسٹم بگڑا ہو تو سسٹم سے وابستہ دیگر سیاستدانوں پر کیوں الزام نہیں آئے گا اور سسٹم کی اصلاح کی کوئی تڑپ کیونکر بار آور ہو پائے گی۔ اب عذرِ گناہ بدتر از گناہ کی مثال پیش کرتے ہوئے این آر او سے استفادہ کے جواز میں کیسے کیسے دلائل گھڑے جا رہے ہیں۔ اب یہ مقدمہ فوجی آمریت کی انتقامی کارروائی بن گیا ہے۔
بالکل، انتقامی کارروائی بھی ہوگی مگر سیاست کیا یہ تقاضہ نہیں کرتی کہ جھوٹے اور جعلی مقدمات کا پامردی سے مقابلہ کیا جائے، عدالت کی عملداری پر یقین کیا جائے اور اگر بے گناہ ہیں، جیسا کہ این آر او یافتگان کی اکثریت دعویٰ کر رہی ہے تو عدالت کی عملداری میں یہ بے گناہی ثابت ہو جائے گی اور باعزت بریت کا اعزاز حاصل ہو جائے گا۔ پھر این آر او پر متفق ہونے اور اس کے تحت ان مقدمات میں سہولتیں اور رعایتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جن میں قانون و انصاف کی عملداری میں آپ کی بے گناہی ویسے ہی ثابت ہو جاتی۔
اگر سیاستدانوں سے ہٹ کر موجودہ اور سابقہ بیورو کریٹس اور قومی خزانہ کی لوٹ مار میں مصروف دیگر آٹھ ہزار کے قریب افراد نے اس ننگے رعایتی آرڈر سے فائدہ اٹھا کر اپنی لوٹ مار کو ہضم کرلیا تھا تو انہیں یہ موقع کیسے حاصل ہوگیا، صرف اس وجہ سے کہ سسٹم کی اصلاح کے ذمہ دار لیڈران بھی این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے اور افضل سندھو صاحب کو کیا یہ وضاحت بھی پیش نہیں کرنا چاہئے تھی کہ این آر او کو لانے کا جذبہ اور تحریک کیسے پیدا ہوئی، کیا اس کا مقصد ان تمام سابق بیورکریٹس اور سیاستدانوں سے ہٹ کر دیگر بدبختوں کو ان کی لوٹ مار میں سزاﺅں سے تحفظ فراہم کرنا تھا جن کے نام افضل سندھو کی جاری کردہ فہرست میں موجود ہیں یا یہ این آر او فی الواقع ان سیاستدانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے لایا گیا جو این آر او یافتگان کی فہرست میں آٹے میںنمک کے برابر موجود ہیں۔ جناب! اگر آپ کی وجہ سے دیگر بدعنوانوں، چوروں، لٹیروں کو بھی بھاگنے کا راستہ مل گیا ہے تو کیا محض اس لئے آپ کو بدنام نہ کیا جائے کہ طویل فہرست میں آپ کی تعداد تو بس تین درجن کے قریب ہے۔ ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ اگر باڑ ہی کھیت کو کھانا شروع کردے تو شہر میں قحط کا ذمہ دار کیا ان کیڑوں مکوڑوں کو ٹھہرایا جائے گا جو باڑ کی جانب سے ڈھیل ملنے کے باعث کھیت کے اندر در آئے ہوں اور فضل اجاڑنے کے جاری عمل میں شریک ہوگئے ہوں۔
ہم نے اصلاح کرنی ہے اور جن کو اصلاح کی بنیاد بنانا ہے، اگر انہی کو اصلاح کے عمل میں الگ باندھ کر محفوظ چھوڑ دیا جائے تویہ اصلاح کس کام آئے گی کہ مرض تو اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ اس لئے اب کسی عذر کی جانب مت جائیں۔ اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے تو جو گند جہاں پرہے اور جہاں سے نظر آتا ہے اس کی صفائی کر دی جائے۔ اگر ایوان اقتدار میں اس گند کی اکثریت ہے تو وہاں جھاڑو پھیرے بغیر باہر کی لیپاپوتی سے بھلا کیا مقصد حاصل ہوگا۔ سوائے اس کے کہ قانون کی بے وقعتی اور لاقانونیت کی عملداری مزید ثابت ہو جائے گی اور اس عملداری میں قومی وسائل اور قومی خزانہ کو لوٹنے والے ہاتھ بڑھ جائیں گے۔ کرپشن کلچر کے پہلے سے بھی زیادہ وارے نیارے ہو جائیںگے اور دیانت شرم کے مارے منہ چھپاتی پھرے گی، تو جناب بسم اللہ ہوئی ہے تو اب خاتمہ بالخیر کیا جائے۔ اگر اب بھی طاقت و اختیار ہی کو تحفظ دینا ہے تو پھر قدرت کے اختیار میں تو کوئی پَر نہیں مار سکتا۔ آپ اپنی من مانی کریں۔ قدرت خلقِ خدا کے ساتھ خود انصاف کردے گی۔
پھر جناب! یہ کیا استدلال ہے کہ این آر او سے فائدہ تو تین درجن سیاستدانوں نے اٹھایا مگر پوری سیاست اور تمام سیاستدان بدنام ہورہے ہیں۔ اگر سسٹم کی اصلاح کے ذمہ داروں کے ہاتھوں ہی سسٹم بگڑا ہو تو سسٹم سے وابستہ دیگر سیاستدانوں پر کیوں الزام نہیں آئے گا اور سسٹم کی اصلاح کی کوئی تڑپ کیونکر بار آور ہو پائے گی۔ اب عذرِ گناہ بدتر از گناہ کی مثال پیش کرتے ہوئے این آر او سے استفادہ کے جواز میں کیسے کیسے دلائل گھڑے جا رہے ہیں۔ اب یہ مقدمہ فوجی آمریت کی انتقامی کارروائی بن گیا ہے۔
بالکل، انتقامی کارروائی بھی ہوگی مگر سیاست کیا یہ تقاضہ نہیں کرتی کہ جھوٹے اور جعلی مقدمات کا پامردی سے مقابلہ کیا جائے، عدالت کی عملداری پر یقین کیا جائے اور اگر بے گناہ ہیں، جیسا کہ این آر او یافتگان کی اکثریت دعویٰ کر رہی ہے تو عدالت کی عملداری میں یہ بے گناہی ثابت ہو جائے گی اور باعزت بریت کا اعزاز حاصل ہو جائے گا۔ پھر این آر او پر متفق ہونے اور اس کے تحت ان مقدمات میں سہولتیں اور رعایتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی جن میں قانون و انصاف کی عملداری میں آپ کی بے گناہی ویسے ہی ثابت ہو جاتی۔
اگر سیاستدانوں سے ہٹ کر موجودہ اور سابقہ بیورو کریٹس اور قومی خزانہ کی لوٹ مار میں مصروف دیگر آٹھ ہزار کے قریب افراد نے اس ننگے رعایتی آرڈر سے فائدہ اٹھا کر اپنی لوٹ مار کو ہضم کرلیا تھا تو انہیں یہ موقع کیسے حاصل ہوگیا، صرف اس وجہ سے کہ سسٹم کی اصلاح کے ذمہ دار لیڈران بھی این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے اور افضل سندھو صاحب کو کیا یہ وضاحت بھی پیش نہیں کرنا چاہئے تھی کہ این آر او کو لانے کا جذبہ اور تحریک کیسے پیدا ہوئی، کیا اس کا مقصد ان تمام سابق بیورکریٹس اور سیاستدانوں سے ہٹ کر دیگر بدبختوں کو ان کی لوٹ مار میں سزاﺅں سے تحفظ فراہم کرنا تھا جن کے نام افضل سندھو کی جاری کردہ فہرست میں موجود ہیں یا یہ این آر او فی الواقع ان سیاستدانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے لایا گیا جو این آر او یافتگان کی فہرست میں آٹے میںنمک کے برابر موجود ہیں۔ جناب! اگر آپ کی وجہ سے دیگر بدعنوانوں، چوروں، لٹیروں کو بھی بھاگنے کا راستہ مل گیا ہے تو کیا محض اس لئے آپ کو بدنام نہ کیا جائے کہ طویل فہرست میں آپ کی تعداد تو بس تین درجن کے قریب ہے۔ ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ اگر باڑ ہی کھیت کو کھانا شروع کردے تو شہر میں قحط کا ذمہ دار کیا ان کیڑوں مکوڑوں کو ٹھہرایا جائے گا جو باڑ کی جانب سے ڈھیل ملنے کے باعث کھیت کے اندر در آئے ہوں اور فضل اجاڑنے کے جاری عمل میں شریک ہوگئے ہوں۔
ہم نے اصلاح کرنی ہے اور جن کو اصلاح کی بنیاد بنانا ہے، اگر انہی کو اصلاح کے عمل میں الگ باندھ کر محفوظ چھوڑ دیا جائے تویہ اصلاح کس کام آئے گی کہ مرض تو اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ اس لئے اب کسی عذر کی جانب مت جائیں۔ اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے تو جو گند جہاں پرہے اور جہاں سے نظر آتا ہے اس کی صفائی کر دی جائے۔ اگر ایوان اقتدار میں اس گند کی اکثریت ہے تو وہاں جھاڑو پھیرے بغیر باہر کی لیپاپوتی سے بھلا کیا مقصد حاصل ہوگا۔ سوائے اس کے کہ قانون کی بے وقعتی اور لاقانونیت کی عملداری مزید ثابت ہو جائے گی اور اس عملداری میں قومی وسائل اور قومی خزانہ کو لوٹنے والے ہاتھ بڑھ جائیں گے۔ کرپشن کلچر کے پہلے سے بھی زیادہ وارے نیارے ہو جائیںگے اور دیانت شرم کے مارے منہ چھپاتی پھرے گی، تو جناب بسم اللہ ہوئی ہے تو اب خاتمہ بالخیر کیا جائے۔ اگر اب بھی طاقت و اختیار ہی کو تحفظ دینا ہے تو پھر قدرت کے اختیار میں تو کوئی پَر نہیں مار سکتا۔ آپ اپنی من مانی کریں۔ قدرت خلقِ خدا کے ساتھ خود انصاف کردے گی۔