مشرف نے کرپشن کے ثبوت تلف کرا دیئے‘ ریکارڈ کی کاپیوں کی موجودگی کا انکشاف

Nov 23, 2009

سفیر یاؤ جنگ
لاہور (رپورٹ سلمان غنی) قومی مفاہمتی آرڈیننس سے مستفید ہونے والے سیاستدانوں‘ حکمرانوں اور افسران کے مقدمات پر مشتمل دوسرے ریکارڈ کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جسے بنیاد بناتے ہوئے 28 نومبر کے بعد مذکورہ عناصر کے گرد شکنجہ کسا جاسکتا ہے۔ مشرف دور میں مذکورہ آرڈیننس آنے کے بعد لاہور کے تین کلب روڈ سمیت چاروں صوبوں کے ریجنل ہیڈکوارٹرز سے فوجداری‘ دیوانی اور کرپشن کے دیگر مقدمات پر مشتمل حساس ریکارڈ مشرف کی ہدایت پر مخصوص گاڑیوں کے ذریعہ اسلام آباد منگوا کر تلف کر دیا گیا تھا۔ نیب کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق نیب کرپشن کے مقدمات پر مشتمل ریکارڈ کی کاپیاں ایک اور ادارے کو دینے کے پابند تھے۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق قومی مفاہمتی آرڈیننس آنے کے فوری بعد نئی حکومت نے نیب کا ڈنگ نکالنے کےلئے مذکورہ ریکارڈ اور تحقیقات کرنے والے حکام اور مذکورہ ریکارڈ کی بنیاد پر مقدمات بنانے والے 30 پراسیکیوٹرز کو فارغ کر کے ان کی جگہ فروری 2009ءکے بعد حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے پراسیکیوٹرز اس لئے بھرتی کئے تھے کہ آنے والے وقت میں اگر این آر او کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بنتی تو مقدمات انٹی کرپشن عدالتوں میں آنے پر حکومتی حمایتی پراسیکیوٹر کوئی کردار ادا نہیں کریں گے اور اس طرح مقدمات کی مﺅثر وکالت نہ ہونے پر مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق اب مقدمات کی بحالی اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ قوم و ملک کو نہیں ہو سکتا کیونکہ قومی مفاہمتی آرڈیننس آنے پر بیرون ملک خصوصاً لندن اور سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں میں دائر مقدمات کےلئے تعینات غیرملکی پراسیکیوٹرز کو فارغ کر دیا گیا اور جتنی پراپرٹی ضبط تھی وہ بھی چھوڑ دی گئی لہٰذا اب مقدمات کی بحالی کی صورت میں نہ تو بنک اکاﺅنٹس موجود ہیں اور نہ ہی پراپرٹی حکومت یا حکومتی ادارے کے پاس ہے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ این آر او آنے کے بعد کرپشن کے مقدمات کی بناءپر مختلف سیاستدانوں‘ افسران اور حکام کے سیز کئے جانے والے اندرون ملک اکاوئنٹس اربوں روپے پر مشتمل تھے جبکہ جائیدادوں کی مالیت اس کے علاوہ تھی لہٰذا قومی مفاہمتی آرڈیننس آنے کے بعد مذکورہ سیاستدانوں اور افسران نے پہلے مرحلہ پر اپنی یہ رقوم پاکستانی بنکوں سے نکلوا کر بیرون ملک شفٹ کر ڈالیں اور نیب کے پاس بیرون ملک بنکوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ جن کے مطابق بیرون ملک پاکستان کے 191 مختلف افراد کے کروڑوں ڈالرز اور پونڈز موجود ہیں اور اگر ان افراد کا یہ پیسہ واپس لایا جائے تو پاکستان کے قرضے ختم ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ مقدمات کی عوامی سماعت سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مزیدخبریں