حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ قوم کی دکھتی ہوئی رگوں پر ہاتھ بھی رکھتا ہے اور مرہم بھی۔ جب پورے ملک میں لایعنی اور بے معنی بحثیں، مذاکرات اور بیانات چل رہے ہوتے ہیں تو تب بھی حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ میں علمی ادبی فکری، ثقافتی صحافتی اور قومی منظر نامے پر تفکر اور تدبیر آمیز موضوعات پر جامع و ارفع خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ حال ہی میں ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ ابصار عبدالعلی نے ”اردو کی قومی اور دفتری حیثیت“ پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ اردو ایک ایسا موضوع،ایسا باب، ایسی بحث ہے جس سے پہلو تہی کر کے ہم اپنی شناخت کو مسلسل مسلتے اور کچلتے آ رہے ہیں۔ کائنات کا تمام ”ردھم“ تکلم پر ہے اور تکلم کیلئے ایک عدد زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر قوم کی پہچان اس کی قومی زبان سے ہوتی ہے۔ قومی زبان کو ملک کا ہر بالغ نابالغ، خواندہ ناخواندہ جانتا اور سمجھتا ہے۔ اس سے ابلاغ اور ترسیل کے مراحل رواں رہتے ہیں۔ اردو ہمارے لئے وسیلہ¿ نجات اور آزادی کا پیغام لیکر ابھری تھی۔ سرسید احمد خان نے جب پہلی بار بددل ہو کر دو قومی نظریہ کی بات کی تو ان کے پیش نظر اردو کے ساتھ ہندوﺅں کا تعصب اور جارحانہ رویہ تھا۔ یہ کہنے یا بتانے کی ضرورت نہیں کہ اردو نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آبیاری اور مسلمان کے استحکام میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ عرب اور ایران افغانستان ترکی سے آنیوالوں کی زبانیں عربی فارسی ترکی تھیں۔ جبکہ اہل ہند ثقیل ہندی، سنسکرت میں کلام کرتے تھے چنانچہ ان سب زبانوں سے اشتراک عمل کے نتیجے میں اردو وجود میں آئی جس نے مذاہب اور اقوام کے درمیان اجنبیت، مغائرت اور تعصب و خوف و خدشات کو دور کیا۔ مسلمانوں اور ہندوﺅں کے درمیان فاصلوں کو دور کیا۔ بزرگان دین شاہ ولی اللہ، مجدد الف ثانی، معین الدین چشتی، داتا گنج بخش ہجویری، خواجہ بختیار کاکی، خواجہ نظام الدین اولیاءنے اردو زبان کے توسط سے اسلام پھیلایا اور ہندوستان کی سرزمین پر وارد ہونیوالے چند سو مسلمان کروڑوں مسلمانوں میں مدغم ہو گئے۔ 1857ءکی جنگ آزادی سے اردو نے اپنی طاقت اور اہمیت کا احساس دلایا فورٹ ولیم کالج اور علیگڑھ کالج کی خدمات بھی بلاشبہ اہم ہیں۔ اردو وجود میں آتے ہی آگاس بیل کیطرح پھیلتی چلی گئی۔ تحریک پاکستان میں اور آزادی حاصل کرنے میں اردو نے وہ ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے جس کے بغیر لوگوں کو آزادی کا احساس دلانا اور ایک آزاد مملکت کا قیام ناممکن تھا۔ اردو کے توسط سے حمیت، خود مختاری، آزادی اور علیحدہ وطن کی تحریک کو تقویت ملی۔ اردو کی اہمیت اور خدمات کو کبھی بھی اور کسی بھی طرح نظر انداز نہیںکیا جا سکتا مگر افسوس کہ آزادی کے بعد سے لیکر آج 65 سال کے میچور اور باشعور پاکستان نے اردو کو نظر انداز بھی کیا ہے اور اردو کی حق تلفی بھی کی ہے۔ بانی¿ پاکستان نے پاکستان بننے سے پہلے اور بننے کے بعد بار ہا فرمایا کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اردو ہو گی۔ 24 مارچ1948ءکو ڈھاکہ میں بانی¿ پاکستان نے اردو کے ضمن میں واشگاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ:
”میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پورے ملک کی صرف ایک ہی زبان ہو سکتی ہے یعنی اردو.... اردو کے سوا کوئی دوسری زبان نہیںہو سکتی“۔
لیکن قائد کے دیگر اقوال کی طرح اردو سے متعلق تمام اقوال کو طاق نسیاں کر دیا گیا۔ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ غیرسنجیدہ معاملات میں سنجیدہ اور سنجیدہ معاملات میں ہم غیر سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ آزادی کے بعد ہم نے اپنے اسلاف کے اقوال کو طاق نسیاں کرنے کی خُو اپنا لی۔ اب تو کسی بھی طاق میں اتنی جگہ باقی نہیں رہی کہ کچھ اور دھرا جائے۔ اردو کو قومی اور دفتری زبان بنانے میں آخر کیا امر مانع تھا؟ ایسا کیا کرنا باقی تھا کہ جس کے بعد اردو کا نفاذ عمل میںآتا؟؟ اردو کو سرکاری زبان بنانے میں کیا قباحت یا مصلحت حائل تھی کہ اردو 65برسوں میں بھی اپنے دیس میںاپنا جائز مقام حاصل نہ کر سکی۔ یہ حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی تھی یا سیاستدانوں کی کم علمی اور بے بضاعیت تھی یا بیوروکریسی کے احساس کمتری میں لتھڑے ہوئے منفی اور کاری سازشی حربے تھے کہ آج بھی اردو اپنی ہی مادر گیتی میں اجنبی اور غیر ہے؟؟؟
جب قائداعظم فرما چکے تھے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی تو پھر ارباب اختیار کیوں حلیہ بازی کرتے رہے؟ قائداعظم کے بعد محمد علی بوگرہ نے جو مصالحتی فارمولا نومبر1953ءمیں تیار کر کے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا۔ اس کے تحت 20 اپریل1954ءکو اسمبلی نے اردو اور بنگالی دونوں کو سرکاری زبان کا درجہ دیدیا تھا۔ 21 دسمبر کو دستور ساز اسمبلی نے اس فارمولے کو منظور کر کے گورنر جنرل کو بھجوا دیا۔ بدقسمتی سے جو سائے کی طرح ہمارے ساتھ چپکی چلی آ رہی ہے، گورنر جنرل کی محض رسمی منظوری درکار تھی کہ 24 دسمبر 1954 کو غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو برطرف کر دیا۔1956ء کا دستور بنا تو ملک میں دو سرکاری زبانوں اردو بنگالی کا اعلان کر کے 20 سال انتظار کیلئے مختص کر دیئے۔ یہ بھی کسی سنگین لطیفہ سے کم نہ تھا کیونکہ اردو کو نافذکرنے میں اس قسم کے بے بنیاد حیلے بہانوں کا کوئی جواز نہ تھا۔ بعد ازاں 1973ءکے آئین کے آرٹیکل 251ءکے تحت 15 سال کے اندر اردو کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا گیا اور اس دوران انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر جاری رکھا گیا۔ اس میں بھی شاید کچھ بدنیتی کا دخل تھا کہ 1973ءکے بعد چار عشرے1983 ، 1993،2003ءاور اب2013 (2013 بھی سر پر کھڑا ہے) بھی آتے چلے گئے لیکن اردو غائب اور انگریزی چھاتی گئی۔ صوبہ پنجاب نے تو کھلم کھلا یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اب انگریزی لازمی اور بنیادی ذریعہ تعلیم ہو گی۔ کبھی کسی نے اس محبت انسیت اور چاہت کا اظہار اردو کیلئے نہیں کیا۔ سیاستدانوں کے منشور اس قومی ضرورت سے بے بہرہ اور ناآشنا ہیں۔ حکمران اپنی تعیش پرستی میں گم ہیں اور بیوروکریسی اپنے احساس کمتر کو کم کرنے اور اپنی بالادستی کیلئے انگریزی فوبیا میں مبتلا ہے جبکہ عوام بھی ”کوا چلا ہنس کی چال“ چل رہی ہے۔ اردو کے بارے میں ایک نہایت پھسپھسا اعتراض کیا جاتا ہے کہ جی اردو میں تراجم نہیں کئے جا سکتے۔ اردو میں اصطلاحات کا بیان مشکل امر ہے۔ اردو میں سائنس اور ٹیکنالوجی کےلئے مناسب الفاظ نہیں ہیں۔ لیکن یہ بے جان اور بے سروپا اعتراضات ہیں اردو ایک وسیع، زرخیز اور قابل عمل زبان ہے۔ جس میں ہر طرح کے تلفظ کی ادائیگی کیلئے تمام حروف تہجی موجود ہیں۔ اردو ایک میٹھی، نرم اور مہذب زبان ہے۔ یہ ایک وسیع زبان ہے۔ جس میں ذخیرہ الفاظ کی کمی نہیں۔ یہ دنیا کی واحد زبان ہے جس میں خود کو دوسری زبانوں میں سمانے اور دوسری زبانوں کو سمونے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ اردو کے لسانی ڈھانچے میں لچک اور وسعت ہے، اردو کو غیر مقبول کرنے میں جہاں حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا ہاتھ ہے وہاں نام نہاد ادباءشعرا، اساتذہ اور پالیسی سازوں کا بھی ہے جنہوں نے اردو میں ایسے ثقیل ، گنجلک، پیچیدہ اور دق الفاظ استعمال کئے کہ لوگ اردو کو مشکل سمجھ کر متنفر ہونے لگے مثلاً ایک لفظ ”اکاﺅنٹینٹ جنرل“ کا ترجمہ یہ کیا ، محاسب اعلیٰ، میر محاسب، مہتمم اعلیٰ وغیرہ ظاہر ہے یہ عام فہم اور مانوس یا آسان الفاظ نہیں ہیں۔ ان کی نسبت ”اکاﺅنٹینٹ جرل زیادہ موزوں نظر آتا ہے۔ اس طرح کے مشکل پسند اور اپنے مسائل کے گرداب اور اپنی شخصیت کے الجھاﺅ والے افراد نے اردو کو مبہم اور دقت پسند بنانے کی دانستہ کوشش کی چنانچہ اردو سے تنفر پیدا ہوا۔ خوف اور ناپسندیدگی شعوری سطح پر پیدا کی گئی۔ لوگوں کو اردو کی نسبت انگریزی سہل رواں اورآسان لگی چنانچہ ان تمام عناصر نے اردو کو اپنے دیس سے دیس نکالا دیدیا۔ اردو سے دشمنی کر کے آج ہم لوگ اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔ اپنی زبان سے بے اعتنائی اور بے رخی ہماری ترقی کا سب سے بڑا نوحہ بن گئی۔
آج اردو اپنے ہی وطن میں بے آسرا، یتیم، لاوارث اور اجنبی ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اردو دنیا کی چھ ہزار زبانوں میں سے دنیا کی ساتویں بڑی زبان ہے اور دنیا کے 200 ممالک میں سے 99 ممالک میں بولی لکھی پڑھی اور جانی جاتی ہے۔ المیہ فقط یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں غیر اور بے وقعت ہے ....
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے