مکرمی! پنجاب حکومت نے اس دفعہ عیدالاضحیٰ پر ماحولیاتی آلودگی کو جس طرح کنٹرول کیا ہے۔ قابل قدر ہے۔ مگر اس مسئلے پر مستقل بنیادوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سنیئے اور سوچئے دادا کے دوپوتے بیرون ملک سے آئے دادا ان کو گاڑی میں بٹھا کر آئس کریم کھلانے لے گیا دادا نے آئس کریم گاڑی کے باہر کھڑے ہو کر کھائی اور کپ ہوا میں اچھال کر گاڑی چلانے کیلئے اندر بیٹھ گیا۔ دونوں پوتے اندر بیٹھے کھا رہے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو متجسس نگاہوں سے دیکھا نادر شاہی حکم دیا گیا گاڑی روکو! گاڑی روکو!! گاڑی رکی ”واپس چلو کپ باسکٹ میں ڈالو، دادا کو جانا پڑا، اٹھانا پڑا اور باسکٹ میں ڈالنا پڑا۔ بچوں کا یہ رویہ انکی تربیت کی عکاسی کرتا ہے اگر ہمارے ہاں بھی ہر سکول میں صفائی کا سپیشل پیریڈ رکھا جائے اخبارات صفائی کی اہمیت پر فیچر شائع کریں تمام ٹی وی چینل اسی عنوان کی کمرشل طرز کی فلم دکھائیں جس کو دن میں تین بار چلانا لازمی قرار دیا جائے۔ راہ چلتے لوگ جو سگریٹ، ڈبیا اور کاغذ وغیرہ باہر پھینکیں ان کا چالان ہو اتوار بازاروں میں ہر دکاندار اپنی ویسٹ خود سنبھالے اور مخصوص کردہ جگہوں پر رکھے۔ تفریح پارکوں میں ایسے قد آدم بورڈ لگائے جائیں جنہیں دیکھ کر بندہ از خود گندگی پھیلانے پر شرمندہ ہو سڑکوں پر چلتی ٹریفک میں دھواں چھوڑنے اور بلاوجہ ہارن کو چالان کے زمرے میں لایا جائے اور سختی سے اس پر عمل کیا جائے۔ صفائی کا عملہ چھڑکاﺅ کے ساتھ سورج طلوع ہونے تک صفائی مکمل کر لیں۔ عوام ایک دوسرے کو گندگی پھیلانے پر شرمسار کریں۔ باایں ہمہ اگر آئمہ صاحبان مساجد میں حدیث پاک ”صفائی نصف ایمان ہے“ کا باقاعدہ درس دینا شروع کر دیں تو باقی کسی بات کی ضرورت ہی نیہں رہتی۔ صرف قانون ضابطے کی رسیوں کو تھوڑا ”کسنے“ کی ضرورت ہے کیونکہ ہم پامال رستوں پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ورنہ ہم بھی زندہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ عزت مآب وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے التماس ہے اس ضمن میں عملی اقدام کرنے کا حکم صادر فرمائیں۔
(ف۔ ق لاہور37572766)