نفاذِ شریعت کا فریضہ اور بانیانِ پاکستان

بانیانِ پاکستان ہوں یا طالبان، ہر دو اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں شریعتِ اسلامی کا نفاذ ناگزیر ہے مگر دونوں کی حکمت اور حکمتِ عملی مختلف ہی نہیں ، متضاد ہے۔ بانیانِ پاکستان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خیروبرکت کے داعی ہیںتو طالبان خوف و دہشت کے علمبردار۔ہماری قومی تاریخ میں ایک فوجی آمر نے اپنے سیاسی مخالفین کو کوڑے مار مار کر شریعت کے نفاذ کا عمل شروع کیا تھا۔یہ عمل تب سے لےکر اب تک جاری ہے۔ تب کوڑوں اور قید و بند پر اکتفا کیا جاتا تھا مگرآج نفاذِ شریعت کے نام پراغوا اور گلے کاٹنے کو مستحسن قرار دیا جاتا ہے۔قتل و غارت اور دہشت و بربریت نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اِس بھیانک صورتِ حال سے نبٹنے کی خاطر بانیانِ پاکستان کے حقیقی تصورِشریعت کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی مثنوی ”پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق“کے ایک باب میں شریعت اور طریقت کے اسرار بیان فرمائے ہیں۔اس باب میں اسلامی شریعت کے معیار و اقدار نمایاں کرتے وقت معاشی استبداد کو معاشرتی ابتری کا سبب بتایا گیا ہے۔اِس سے نجات کی خاطر اسلامی شریعت میں انسانی اخوت و مساوات کے فروغ و استحکام کی خاطر معاشی عدل کو ناگزیر بتایا گیا ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلامی شریعت کا جلی عنوان ہی معاشی انصاف ہے۔ اُن کے نزدیک اسلامی شریعت کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی بھی شخص اپنی بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کا محتاج نہ ہو۔ وہ صوفیائے عظام اور علمائے کرام سے التجا کرتے ہیں کہ اپنے آرام دہ حجروں سے باہر نکلیں اور معاشرے میں دین کے اسرار فاش کریں:....
اے کہ می نازی بہ قرآنِ حکیم
تا کجا در حجرہ می باشی مقیم
در جہاں اسرارِ دیں را فاش کُن
نکتہ¿ شرعِ مبیں را فاش کُن
کَس نہ گردد در جہاں محتاجِ کَس
نکتہ¿ شرعِ مبیں این است و بست
علامہ اقبال نے اس مثنوی کی اشاعت کے صرف ایک سال بعد قائداعظم کے نام اپنے خط میں اِس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے بالائی ، مراعات یافتہ طبقات کے مفادات کی محافظ بنی بیٹھی ہے اور اُسے مسلمان عوام کے مقدر کو سنوارنے کی کوئی فکر نہیں۔ نتیجہ یہ کہ مسلمان عوام کو بھی مسلم لیگ کی کوئی فکر نہیں۔ مسلم لیگ نے ابھی تک اس امر کا غوروفکر کرنے کے لیے وقت ہی نہیں نکالا کہ مسلمان عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کو کیونکر حل کیا جا سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کے مستقبل کا انحصار اِس سوال پر گہرے غور و فکر کے بعد اِس کا قابلِ عمل حل تلاش کرنے میں ہے۔یہ سوال ہم مسلمانوں کے لیے کوئی ایسا مشکل سوال نہیں ہے۔ شریعتِ اسلامی کے نفاذ میں یہ حل موجود ہے۔ میں اسلامی شریعت کے قوانین کے گہرے مطالعے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو جدید معاشی نظریات کے سیاق و سباق میں سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو غریب عوام کے معاشی مصائب بہ آسانی دُور کیے جاسکتے ہیں۔ اسی خط میں اقبال نے پنڈت جواہر لعل نہرو کی جانب سے بے خُدا سوشلزم کو اپنا کر غربت و افلاس سے نجات کے پراپیگنڈے کی طرف قائداعظم کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ساتھ ہی اِس امر کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہندومت سوشلزم کو اپنانے سے ہمیشہ انکاری رہے گی۔ اِس کے برعکس سوشلزم کو اسلام کے اصول و قانون کے مطابق اپنا لینا گویا اسلام کی اصل پاکیزگی کی بازیافت ہے۔ اِن مسائل کے حل کی خاطر برصغیرمیں ایک یا ایک سے زیادہ آزاد اور خودمختار ممالک میں تقسیم کرنا لازمی ہے کیونکہ صرف مسلم اکثریت کی اسمبلی ہی نفاذِ شریعت کے باب میں قانون سازی کر سکتی ہے۔
تحریکِ پاکستان کے دوران 1946ءمیں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے دہلی میں لیگی رہنماﺅں سے خطاب کرتے ہوئے ، بڑے دردناک انداز میں اِس امر کی نشاندہی کی تھی کہ جاگیردار اور سرمایہ دار غریبوں کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ اُنہیں اِس سے باز آ جاناچاہیے کیونکہ پاکستان میں اِس ظلم و ستم کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قیامِ پاکستان کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے وقت بابائے قوم نے جہاں سٹیٹ بینک کو A Symbol of our Sovereignty قرار دیا تھا وہاں بینک کے زیرِ اہتمام ریسرچ آرگنائزیشن کے قیام کو خوش آئند قرار دیا تھا۔ اِس موقع پر اُنہوں نے مغرب کے اقتصادی نظام کو انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ٹھہرایا تھا۔ اُن کے خیال میں دو عالمی جنگیں اِسی مغربی اقتصادی نظام سے پھوٹنے والے ظلم و استبداد کا نتیجہ تھیں۔اُنہوں نے برملا فرمایا تھا کہ:
"The adoption of Western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contented people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice."
قائداعظم نے پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کو پاکستان مسلم لیگ کی صورت میں از سرِ نو منظم کرنے کے بعد اِس کے پہلے اجلاس میں ہی زرعی اصلاحات کےلئے دولتانہ کمیٹی قائم فرمائی تھی۔ اِس کمیٹی کی سفارشات پرپاکستان کے صرف ایک صوبے، مشرقی پاکستان نے عمل کیا تھا۔آج کے پاکستان کے باقی سب صوبے اِن سفارشات پر عمل کرنے سے گریزاں رہے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان میں قائم ریسرچ کا وہ ادارہ بھی ختم کردیا گیا تھا جس کا بنیادی فرض عدل و مساوات پر مبنی اسلامی اقتصادی نظام کی تشکیل و تعبیر تھا۔ سٹیٹ بنک میں اِس ادارے کی خالی کی گئی جگہ پر امریکی مشیر آ بیٹھے اور یوں آج تک پاکستان پر مغرب کا اقتصادی استحصالی نظام مسلط ہے۔ تب سے لےکر اب تک ہمارے جس لیڈر نے بھی مروّجہ اقتصادی استحصالی نظام میں اصلاح کرنا چاہی اُس کا مقدر یا تو قاتل کی گولی ٹھہرا اور یا پھانسی کا پھندا۔چنانچہ ہم آج تک پاکستان میں بانیانِ پاکستان کے تصورِ شریعت کو نافذ کرنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کے بعد ہماری قیادت نے افغانستان میں روس کے خلاف امریکی جنگی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر دینی مدارس کو جنگ و جدل کی راہ پر ڈال دیا۔ روس کی پسپائی کے بعد یہ سپاہ فرقہ وارانہ جنگ و جدل میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کے ”جہاد“میں مصروف ہو گئی۔ اِن کی شریعت بانیانِ پاکستان کی شریعت سے جُدا ہے۔ بانیانِ پاکستان نے ایک عوامی جمہوری تحریک سے پاکستان قائم کیا تھا تاکہ اُس میں عوامی فلاح و بہبود اور انسانی خیروبرکت کی علمبردار شریعت کو آئینی اصلاحات کے ذریعے ترویج دی جا سکے۔ اِس کے برعکس طالبان تفسیر و تعبیر کے ذرا سے اختلاف پر اپنے مسلمان بھائیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دینے کو نفاذِ شریعت کا نام دیتے ہیں۔ وحشت و بربریت کے اِس طوفان کو ”نسیمے از حجاز“میں بدلنے کی خاطر ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دُنیائے اسلام کے خلاف نیٹو اتحاد سے الگ ہو جائیں اور بانیانِ پاکستان کے تصورِ شریعت کو صدقِ دل سے اپنا کر پاکستان کو امن و انصاف کا مسکن بنا دیں۔

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر دی نیشن