جسے دیکھو دانشمندی بھگارنے پر لگا ہوا ہے۔ کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کیساتھ جو کچھ ہوا اسلام تو فلاح انسانیت کا عظیم ترین اور بے مثال دین ہے، عام اخلاق بھی اسکی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسکی مذمت جتنی بھی کی جائے کم ہے لیکن اس کے محرکات اور نتائج، عواقب کا بھی جائزہ لینا چاہئے۔ امریکہ میں اگر کوئی جادوگری کرتا پایا جائے تو سے زندہ جلا دیا جاتا ہے یا موت سے ہمکنار کر دیا جاتا ہے ۔ ایسے بہت سے واقعات اخبارات میں آ چکے ہیں۔ عیسائی جوڑے کا باپ بھی کالا جادو کرتا تھا اور کالے جادو میں ابلیسی قوتوں سے مدد لی جاتی ہے۔ اس عمل میں مقدس اوراق کی بے حرمتی کے ایسے ایسے طریقے بیان کئے گئے ہیں کہ جو کسی بھی بے عمل سے بے عمل مسلمان کیلئے بھی قابلِ برداشت نہیں ہے۔ ناصر مسیح کے بارے میں پاکستانی میڈیا سے متعلق خبرنگاروں نے کھلی جہالت کا مظاہرہ کیا۔ نیوز ایڈیٹروں نے بھی اس جہالت کو محسوس نہیں کیا خبر میں لکھا گیا کہ ناصر مسیح تعویذ دھاگے کا کام کرتا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کٹرعیسائی تعویذ دھاگے کا کام کیسے کر سکتا ہے جو کہ نوری علم ہے جس مقدس کتاب پر اس کا یقین ہی نہیں ہے، جس کتاب کو وہ سمجھتا ہی نہیں ہے، سمجھ جاتا تو عیسائی نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ اس کے ذریعہ تعویذ دھاگے کیسے بنا سکتا ہے۔ اس لئے یقینی طور پر اس نے یہ مقدس اوراق بے حرمتی کیلئے ہی رکھے ہوئے تھے اور اسکے آنجہانی ہونے کے بعد بیٹے اور بہو نے ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے کسی مسجد یا کسی مسلمان کے حوالے کرنے کی بجائے نذرِ آتش کرنا ضروری سمجھا۔ یہ عمل مسلمانوں کیلئے قدرتی طور پر اشتعال کا سبب بن سکتا ہے اور بنا ہے۔ تاہم اس اشتعال کے نتیجے میں جو کچھ ہوا اس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
البتہ ایسے کسی واقعات کے بعد حکمرانوں کی جانب سے دل جوئی کا مظاہرہ جس انداز سے کیا جاتا ہے یہ غور طلب ہے۔ انکا یہ عمل دراصل مغربی دنیا بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کے ردِعمل سے پیدا شدہ خوف کا نتیجہ ہے ایسے کسی واقع کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی ناراضگی کے خوف سے انکی ٹانگیں لرزنے لگتی ہیں۔ کسی پاکستانی کیساتھ ایسا واقع ہو جائے تو انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ برطانیہ میں ایک مسلمان ڈاکٹر کو فیملی سمیت جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ مغرب کے انسان دوست ضمیر میں ذرا جنبش نہیں ہوئی۔ میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ بھارت میں جس مودی نے ہزاروں مسلمانوں کو گھروں سمیت جلا کر بھسم کردیا۔ وہ مودی آج امریکہ، برطانیہ اور مغرب کی آنکھ کا تارہ ہے۔ پاکستان میں انداز نرالے ہیں۔ آسیہ نامی کرسچن خاتون توہین کا ارتکاب کرتی ہے تو گورنر کی سطح کا شخص اس کی حمایت میں تھا۔ رمشا مسیح مرتکب ہو تو اسے ہیلی کاپٹر اور بکتر بند گاڑی کے پروٹوکول سے نوازا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل نے توہینِ رسالتؐ اور مقدس کتاب کی بے حرمتی کے مذموم عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ یہ حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن رہا ہے کسی اقلیتی فرقہ کے فرد کیساتھ زیادتی پر حکومت کو حرکت میں آنا چاہئے، کسی عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی کے قتل کے ملزم کو عبرت ناک سزا دی جانی چاہئے لیکن انکے لواحقین کیساتھ وہی سلوک ہونا چاہئے جو کسی مسلمان مقتول کے لواحقین کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ مسلمان مقتول کے لواحقین تو برسوں عدالتوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں غریب ہوں تو مقتول کی بیوہ اور بچے دوسروں کے گھروں میں کام کر کے پیٹ بھرتے ہیں یا بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اقلیتی فرقہ کے لوگ مسلمانوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو پھر مسلمانوں کیلئے اس ملک میں عمومی رویوں کو بھی ذہنی طور پر قبول کرنا چاہئے۔ مسلمان غیر مسلموں کیلئے کتنے روادار ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ انکی عبادت گاہیں محفوظ ہیں، وہ پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے سکتے ہیں، کسی بھی محکمے میں نوکری کر سکتے ہیں اور بطور پاکستانی یہ ان پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ تاہم ایسے واقعات پر حکمران امریکہ اور برطانیہ کی بجائے اللہ سے ڈرنے کی روش اختیار کریں غیر مسلموں کے ساتھ کوئی مسلمان زیادتی کرے تو اسے عبرت کا نشان بنا دیں کہ آئندہ کسی کی جرأت نہ ہو مگر ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کریں کہ توہینِ رسالتؐ اور مقدس اوراق کی بے حرمتی امیر بننے، دولت حاصل کرنے کا آسان ذریعہ بنا لیا جائے۔میں نے اپنی اہلیہ کی وفات پر اجمل نیازی کے حوالے سے لکھا تھا کہ انکے نانا جان نے اپنی اہلیہ کی وفات پر بڑے دکھ سے کہا تھا کہ ’’آج میں یتیم ہو گیا ہوں۔‘‘
اس حوالے سے تحریک پاکستان کے کارکن، میرے والد مرحوم کے دوست اور میرے بزرگ قاضی مرید احمد کی صاحبزادی بہن محترمہ سعیدہ قاضی نے بتایا کہ اُنکے والد بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا غلام مرشد کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت کیلئے گئے تو مولانا نے یہی بات کی تھی کہ ’’قاضی میں آج یتیم ہو گیا ہوں‘‘ سکھ دینے والی بیویوں کی وفات پرایسے ہی جذبات محسوس کئے جاتے ہیں۔ عالمی مجلس ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ، پاکستان ٹیلی ویژن کے ایڈوائزر آغا مسعود شورش، برادرم اجمل نیازی،یسین وٹو (سب کے نام لکھنا ممکن نہیں ہے) کے اظہارِ ہمدردی کا بے حد شکریہ۔