کہتے ہیں کہ دوست وہ ہوتا ہے جو مشکل میں کام آئے۔ جب ہم ملکی سطح پر دوسرے ممالک سے تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا خیال فوری طور پر اپنے عظیم ہمسائے چین کی طرف جاتا ہے۔ جس کی دوستی حقیقتاً ہمالیہ سے بلند اور سمندوں سے گہری ہے۔ہماری دوستی TIME TESTEDہے اور ہر آزمائش میں پوری اتری ہے۔ میرے شہید بھائی جس کا تعلق پاکستان ائیر فورس سے تھا نے مجھے بتایا کہ جب 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران وہ چین گیا تو انہوں نے اُنکے وفد کو BLANK CHEQUE دیدیا اور کہا کہ آپکو جس چیز کی جتنی ضرورت ہے وہ لے جائیں۔ جناب نواز شریف کے حال میں چین سے دورے میں جس کے دوران 19 MOUS یعنی معاہدوں پر دستخط ہوئے اس سے پاک چین دوستی کو ایک نئی گہرائی اور جہد عطاکر دی ہے۔ بنیادی طور پر یہ معاہدے بجلی کی پیداوار اور اپاک چین معاشی ڈھانچے کی تعمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے تقریباً 42 بلین ڈالرکی سرمایہ کاری ہو گی۔ بجلی کی پیداوار کے منصوبوں سے مجموعی طور پر 16520 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی اور انہیں سرمایہ کاری کی تیزی سے فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے چینی حکومت نے Green Channel کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے صحیح کہا کہ چین کی اس سرمایہ کاری کے بعد ملک میں توانائی کا بحران حل ہو جائیگا۔ مزید برآں اس سے تقریبا 10لاکھ افراد کیلئے روزگار کے مواقع حاصل ہونگے اور ملک میں خوشحالی آئیگی۔پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی تعاون جس میں پرانے SILK ROUTE کی دوبارہ بحالی شامل ہے سے وسطی اور جنوبی ایشیا جہاں دنیا کی آدھی آبادی رہتی ہے میں خوشحالی آئے گی جو کہ مغربی ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔کیونکہ ان اقدامات کے نتیجے میں امریکہ کی طرف سے چین کی MALACCA STRAIT تک رسائی روکنا نا ممکن ہو جائیگا کیونکہ اب چین کو پاکستان کے ذریعے بحیرہ عرب تک محفوظ اور قابلِ اعتماد راستہ مہیا ہو جائیگا۔
لیکن چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور جنوبی ایشیا اور وسطی افریقہ میں اسکے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور معاشی پھیلائو کو امریکہ اور اسکے اتحادی اسے اپنے STARATEGICاور تجارتی مفادات کے منافی تصور کرتے ہیں۔چین نے گزشتہ چند سال میں امریکہ کے اتحادی ممالک مثلاً سنگاپور ۔ میامار۔ فلپائن ویت نام اورملایشیاء میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ وہ پاکستان، کینیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بند رگاہیں تعمیر کر رہا ہے جس کا مقصد عسکری اور معاشی مفادات کا حصول ہے۔ مزیر برآں چین اپنی بحریہ میں کیثرتعداد میں آب دورزیں شامل کر رہا ہے اور اگلے 10سال AIR CRAFT CARRIER یعنی جہاز برادر بحری جہاز بھی اس کی نیوی میں شامل ہو جائیگا۔ چین کی ان معاشی اور عسکری سرگرمیوں کی وجہ سے مغربی ممالک میں گہری تشویش پائی جاتی ہے اور امریکہ نے CONTAINMENT OF CHINA یعنی چین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی معاشی اور عسکری پیش رفت کو روکنے کی غرض سے اپنی تمام تر توجہ INDO-PACIFIC REGION کی طرف مرکوز کر دی ہے۔ اس ہی ضمن میں وہ بھارت کو علاقائی سپرپاور کا درجہ دینا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی اور تجارتی تعلقات کو بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھتا اور اُن کو ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس سے چین کو اس علاقے میں اپنے معاشی مفادات کے فروغ میںمدد ملے گی لیکن امریکہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان اور چین باہمی تعاون کی حکمت عملی پر متواتر قائم ہیں اور ان میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے چین کو گواردر بندر گار کے نظم و نسق کا مکمل اختیا دے دیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ دونوں ممالک اپنی معاشی اور عسکری اشتراک عمل کو نئی بلندیوں پر لے جانے کیلئے مستعدی اور ثابت قدمی سے قائم ہیں۔پاک چین دوستی اور معاشی تعاون دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور ایک دوسرے سے یک جہتی کا آئینہ دار ہے۔ پاک چین دوستی کے حوالے سے یہ بات بہت ہی اہم اور قابل ذکر ہے کہ 60کی دھائی میں پاکستان نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی غرض سے پل کا کام کیا جس پر اُس وقت کے چینی وزیر اعظم 3این لائی نے امریکہ کو کہا تھا کہ DONT FORGET THE BRIDGE اس فقرے سے چین کی پاکستان کیلئے محبت اور خلوص کا بھر پور اظہار ہوتا ہے۔ پاکستان کی یہ کارروائی چین کیلئے بے حد اہم اور دور رس نتائج کی حامل ثابت ہوئی کیونکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر چین کی برسوں پر محیط SOLATIONیعنی علیحدگی اور تنہائی کا خاتمہ ہوا۔ مزید برآں پاکستان نے چین کی ہانگ کانگ ،تائی وان اور تبت پر SOVEREIGNTY یعنی فرماروائی کے حوالے سے اُس کو قابل قدر امداد مہیا کی۔ دوسری طرف چین نے بھی پاکستان کی کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے بھرپور حمائت کی نیز اُس نے ہمیں دل کھول کر فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کی جس سے ہمیں دفاعی اور اقتصادی شعبوں میں ترقی کرنے کے مواقع فراہم ہوئے علاوہ ازیں چشمہ ایٹمی پلانٹ کے کے ایچ اور ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس سے کی تعمیر اُس ملک کا پاکستان کیلئے بے پناہ خلو ص اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کی طرف سے بھارت کو سول نیوکلئیرٹیکنالوجی فراہم کئے جانے کے رد عمل کے طور پر پاکستان کو اس شعبے میں بھرپور مدد دینے کا فیصلہ بھی کیا اور اس ضمن میں امریکہ کے تحفظات کو یکسر مسترد کر دیا ۔قارئین!چین سے حال ہی میں ہونیوالے معاشی معاہدے دونوں ممالک کے آپس میں گہرے دوستانہ تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیز اس سے پاکستان کے مغربی ممالک پر اقتصادی اور معاشی اور عسکری انحصارپر خاطر خواہ کمی ہو گی۔ مزید برآں اس طرح ہم امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے بلیک میل اور اُنکی دیگر چیر ہ دستوں سے بھی محفوظ ہو جائینگے۔ پاکستان کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہونے کے حوالے سے ہمارے تمام مفادات اسی علاقے سے وابستہ ہیں۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے علاقائی ممالک سے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس سلسلے میں چین سے اقتصادی معاشی اور فوجی تعاون ناگزیر ہے۔کیونکہ چین ایک تیزی سے ترقی کرتاہو ا ملک ہے جو کہ انشاء اللہ جلدہی عالمی سطح پر اپنی مضبوط معیشت اور فوجی صلاحیتوں کا لوہا منواکر ایک اہم اور فعال کردار ادا کرے گا۔ پاک چین دوستی زندہ باد۔