سابق صدر پاکستان جنرل پرویزمشرف نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بھارت پاکستان اور افغانستان کے مابین پراکسی وار کو ہوا دے سکتا ہے۔ جنرل (ر) مشرف کے اس بیان کی روشنی میں اگر ہم موجودہ حالات کاجائزہ لیں تو بلاشبہ افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں جو نیٹ ورکنگ ہو رہی ہے‘ اس میں ہمیشہ ہی سے بھارتی مداخلت و شرانگیزیوں کے ثبوت ملے ہیں۔ بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسی کے سبب بھارت افغانستان میں قائم ہونے والی موجودہ حکومت یہ غیرمرئی دبائوضرور رکھے گا اور تجارتی و سفارتی محاذوں پر پاکستان کے خلاف زہر والا ماحول پیدا کرتے ہوئے ملک عزیز میں پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو پناہ گاہیں دینے کا پروپگنڈہ جاری رکھے گا۔ چونکہ اس وقت امریکہ افغانستان سے اپنی وار آف ٹیرر لپیٹنے کے چکر میں ہے تو امریکہ اپنی افواج کے انخلاء کے بعد یہاں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے پاک بھارت تنازعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک افغان تعلقات میں بھارتی فتور سے اراداتاً نظر چرائے گا تاکہ پاکستان پہ بھارتی سیاسی دبائو کے تحت پاکستان کو امریکی حمایت کے حصول کا طالب رکھا جا سکے۔ ویسے بھی اس دہائی کہ جس کا آغاز دورانیہ 2015ء سے ہونے والا ہے‘ مشرق وسطیٰ کے ری کنسٹرکشن پہ زیادہ توجہ دیتا نظر آرہا ہے کیونکہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک جیسا کہ عراق‘ شام‘ لیبیا اور سوڈان و نائیجیریا میں گیس و تیل کے وافر ذخائر نظر آرہے ہیں۔2003ء میں جب مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے باقاعدہ مداخلت کا آغاز کیا تو اس کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہوئے۔ خصوصاً فرانس‘ اٹلی اور جرمنی جیسے ممالک بھی عراق پہ ہتھیاروں کی موجودگی کے بہانے کی آڑ میں حملہ آور ہونے کے امریکی اقدام کی سخت مخالفت کی‘ لیکن اس سب کے باوجود امریکی توسیع پسندانہ پالیسیوں و دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کے جنون نے عراق‘ پھر شام‘ لیبیا‘ سوڈان و دیگر کئی ممالک کے نظام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ کرنل قذافی‘ حافظ الاسد اور بشار الاسد‘ صدام حسین‘سب کو امریکہ میٹھی گولی کی مانند نگل گیا۔ اگر ہم مشرق وسطیٰ اور پاکستان میں بدامنی کی توجیہات کے جائزہ لیں تو وضع ہو جاتا ہے کہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں موجود مخالف موومنٹس کو بیرونی عناصر سے سفارتی‘ مالی اور دیگر بدامنی پھیلانے کیلئے تیار کیا اور ملکی نظام کو تہہ و بالا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات مشرق وسطیٰ کے ہوں یا جنوب ایشیا کے‘ نارتھ امریکہ کے ہوں یا یوریشیا کے‘ خونریزی و بدامنی کے واقعات کے پیچھے ہمیں ایک ہی پاور متحرک نظر آرہی ہے اور امریکی پاور کے سوا کون سی ہو سکتی ہے۔ اس وقت امریکہ روس کو بھی ایک بار پھرآڑے ہاتھوں لینے کی تاریخ دہرانے کی راہ پہ ہے۔ آج امریکہ افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عالی مرتبت جنرل راحیل شریف کو اپنی امریکی فوج کا بیسٹ کمانڈر ایوارڈ مرحمت فرما رہا ہے تو اس کی وجہ ہماری پاک فوج کی اپنی صلاحیتیں ہیں کہ جسے اقوام عالم دنیا کی بہترین بہادر فوج تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
اس پوائنٹ میں ‘ میں سمجھتی ہوں کہ اگرچہ اس وقت امریکہ افواج پاکستان کا مان بڑھا رہا ہے۔ ہمارے آرمی چیف کو پذیرائی دے رہا ہے۔ پھر بھی ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہی امریکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو آئے روز خطرات و جدید اسلحہ و ہتھیار فراہم کرکے‘ بھارت میں بارود کی فیکٹریوں کے قیام کی سرپرستی کرکے پاکستان پر انڈین پریشر بڑھانے کا شریک کار بن چکا ہے۔ امریکہ نے ہی ہم پر یہ الزام لگایا تھا کہ ہماری آئی ایس آئی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ امریکہ کا یہ الزام تو جنرل راحیل شریف کی اعلیٰ قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے کامیاب ضرب عضب آپریشن سے بے بنیاد و جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے‘ تاہم امریکہ کے سلالہ و ایبٹ آباد طرز کے پاکستان میں ہونے والے آپریشن کے بعد ہمیں ایسا کوئی پوائنٹ نظر ہی نہیں آتا کہ ہم امریکہ کو قابل اعتماد دوست سمجھ سکیں۔جنرل راحیل شریف نے خطے کے امن کیلئے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف توجہ دلائی۔ اقوام متحدہ کی قرادادوںکے مطابق کشمیر تنازع کے حل کیلئے اقدامات پر زور دیا‘ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ بھارت کو خوش کرنے کیلئے یو این قرارداد پر عملدرآمد کرنے کی بات پہ نہیں آتا۔ بھارت کی ناراضگی سے بچنے کیلئے امریکہ تنازع کشمیر پر پاک بھارت جنگ کے چھائے سیاہ بادلوں میں چھپی شدید طوفانی بارش کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔ اگر امریکہ کا رویہ ایساہی رہا تو امریکہ نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ افواج پاکستان کے دلوں میں بے مقام ہو جائے
گا۔ امریکہ جانتا ہے کہ کشمیر میں مسلمانوںکے ساتھ بھارتی افواج کے ظلم و ستم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ جانتا ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت کے استعمال کا موقع دیا گیا تو کشمیر پاکستان سے ملحق ہو جائے گا۔ امریکہ جانتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کو ناقابل برداشت طوالت سے دبائے رکھنے کا سبب بھارتی ہٹ دھرمی ہے۔امریکہ جانتا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو دبانے کیلئے کنٹرول لائن پر دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے‘ لیکن امریکہ کو کون بتائے کہ جنرل راحیل شریف آرمی چیف آف پاکستان کا سینہ امریکی بیسٹ آف دی بیسٹ کمانڈر ایوارڈ سے زیادہ ستارۂ امتیازِ فاتحِ کشمیر کا حقدار ہے۔
یہ امریکی نوازش… اللہ اللہ
Nov 23, 2014