اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ + آئی این پی) جے یو آئی ف کے زیراہتمام گرینڈ قبائلی جرگہ نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کو جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ شہدا کے ورثا اور زخمیوں کے لئے جامع پیکیج کا اعلان کیا جائے۔ جرگہ کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کلیئر قرار دیئے گئے علاقوں میں آئی ڈی پیز کو واپس جانے کی اجازت دی جائے، تباہ ہونے والی عوامی املاک کی ازسرنو تعمیر کی جائے۔ فاٹا میں تعلیمی ادارے قائم اور صنعتی زون بنائے جائیں ، فاٹا میں روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ میڈیا کے ذریعے آئی ڈی پیز کے مسائل کو اجاگر کیا جائے، جرگے کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔ قبل ازیں جرگے سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں آگ بجھانے کے لئے پانی نہیں تیل چھڑکا جاتا ہے،ہر روز یہ خبریں آتی ہیں کہ اتنے دہشت گرد ہلاک ہوئے،جتنے دہشتگردوں کی ہلاکت سے متعلق بتایا گیا، اتنے تو دہشتگرد بھی نہیں، فاٹا کو خیبر پی کے کا حصہ بنایا جائے یا علیحدہ صوبہ، اقوام عالم میں مسلمانوں اور پاکستان میں قبائل پر آگ برسائی جارہی ہے، آپریشن متاثرین کی مدد کیلئے ابھی تک کوئی تنظیم نہیں آئی، ملک سے آزادی کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے، قیام امن کیلئے قبائلی جرگے کو اختیار دیا جائے، شہروں کو عدل و انصاف فراہم کرنا حکومتی ذمہ داری ہے، باجوڑ اور مہمند کے بے گھر افراد کو ابھی تک گھر نہیں ملا، قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائیاں ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی‘‘ والا معاملہ ہے، قبائل کے مستقبل کا فیصلہ انہیں اعتماد میں لئے بنا نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دین کا اولین تقاضا انسانیت کو امن فراہم کرنا ہے، آج آزادی کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے اور ہم عالمی قوتوں کی غلامی کی طرف جارہے ہیں۔اقوام عالم میں مسلمانوں اورپاکستان میں قبائل پر آگ برس رہی ہے۔ جنوبی وزیرستان کے قبائلیوں نے کہا ہے کہ وانا میں اس وقت جتنا امن ہے اتنا اسلام آباد میں بھی نہیں لیکن اب وہاں ایسے اقدامات شروع کئے گئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں وہاں بھی ایسی صورت حال درپیش آسکتی ہے جو اس وقت شمالی وزیرستان میں ہے۔ بدقسمتی سے وزیر ستان کے لوگ بے گھر ہوئے۔ دوسری جانب پنجاب میں سیلاب آگیا اور ایک جانب اسلام آباد میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑی۔ ملک میں کہیں بھی کوئی قدرتی آفت آئی تو دیگر حصوں سے سامان روانہ کیا گیا لیکن ہمارے ملک میں قبائل کو اس کی ضرورت پڑی کہ ملک کی کوئی جماعت ان پر توجہ نہیں دے سکی۔ قبائل کی رائے لئے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ آفتاب شیرپائو نے جرگہ سے خطاب کرتے کہا پختونوں کے لئے آواز اٹھانا ہے ان کے لئے جدوجہد کرنی ہے۔ قبائل کے جوانوں میں عوام کی خدمت اور رہنمائی کا جذبہ اور طاقت ہے۔ ہم قبائلی عمائدین، مشران اور عوام کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ قبائلی علاقوں کی صورتحال صرف وہاں تک محدود نہیں۔ سب کی توجہ کنٹینرز لگانے اور ہٹانے پر ہے۔ کسی کو آئی ڈی پیز کی فکر نہیں۔ خیبر پی کے کی سرزمین پر ایک عرصہ سے دہشت گردی جاری ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ فاٹا میں اگر کوئی گڑ بڑ ہو تی ہے تو اس کے اثرات دور تک جاتے ہیں۔ سب کی توجہ کنٹینر کی طرف ہے، آئی ڈی پیز کو فراموش کر دیا گیا۔۔ پاکستان کے لئے قبائلیوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔حیدر عباس رضوی نے کہا کہ صبر کا مقصد اپنے موقف پر قائم رہنا ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا انسانی المیہ آئی ڈی پیز کا ہے۔ پختون بھائیوں کا ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں۔ متاثرین کا دکھ ایم کیو ایم سے بڑھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے سربراہ اے این پی اسفندیارولی نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت دھرنوں میں لگ گئی جیسے ہی آئی ڈی پیز کا مسئلہ اٹھا، ساتھ ہی اقتدار کی لڑائی شروع ہو گئی۔ پختونوں کو ظلم کا نشانہ نہ بنایا گیا ہمارے صوبے کا وزیراعلی صوبے کے بجائے اسلام آباد میں دھرنے میں رہا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ بازاروں اور گھروں کو کیوں تباہ کیا گیا؟ خیبر ایجنسی سے آنے والوں کے لئے کوئی کیمپ نہیں لگایا گیا۔ قبائلی عمائدین اور عوام کو اعتماد میں لئے بغیر فاٹا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ فاٹا کے نظام کا فیصلہ صرف فاٹا والوں نے ہی کرنا ہے۔ جو علاقے کلیئر ہو گئے ہیں وہاں لوگوں کو جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی، پختونوں کو دیوار سے نہ لگایا جائے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ دہشت گرد وہ ہوتا ہے جو اپنی سوچ طاقت کے ذریعے لاگو کرے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو کسی کا گریبان سلامت نہیں رہے گا۔