اتوار ‘ 28 محرم الحرام 1436ھ‘23 نومبر 2014ء

Nov 23, 2014

عدالتی فیصلہ اصولی مو¿قف کی کامیابی ہے۔ الطاف حسین کا پرویز مشرف کو مبارکباد کا فون!

ویسے بھی آج کل مشرف کراچی میں موجاں ای موجاں کرتے ہوئے آرام فرما رہے ہیں، یا یوں کہہ لیں الطاف بھائی کے ہاں مہمان ہیں۔ مہمان کے آرام کا خیال رکھنا میزبانوں کا فرض بنتا ہے جو ایم کیو ایم والے بخوبی نبھا رہے ہوں گے۔ اب عدالتی فیصلہ ان کے اصول کی کامیابی ہی سہی مگر ان لوگوں کے لئے نہایت غیر اصولی ثابت ہوا ہے۔ جو اسکی زد میں آ رہے ہیں۔ یہ وہ شرفا ہیں جن کے نام کیس میں آنے پر اب انہیں ان کے دوستوں اور احباب کو پریشانی سی لگ گئی ہو گی۔ خود ان کی حالت ابھی سے مشرف جیسے بیمار کی سی ہونے لگی ہے اور وہ بھی جلد از جلد شہر کے اچھے اچھے نامی گرامی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے سایہ عاطفت میں جانے کے لئے پَر تول رہے ہوں گے۔ کیونکہ عدالتوں میں پیشی اور تاریخیں بھگتنے سے کہیں بہتر ہے کہ میڈیکل سہولت کا فائدہ اٹھا کر جیلوں اور تھانوں کی صعوبتوں سے بچا جائے۔ ورنہ ان کی جو حالت ہونی ہے اس کی منظر کشی اس شعر سے ہوتی ہے ....
اک نئے موڑ پہ زندگی آگئی
ہم کو پھولوں کی زنجیر پہنا گئی
اب تو یہ سب جس طرح مقدمے کی زنجیر میں بندھ گئے ہیں۔ تو اب دوستی کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے مارشل لگاتے ہوئے مشرف کی مدد کی تھی۔ مشرف کو بھی چاہئے کہ وہ انہیں عدالتوں سے محفوظ رہنے اور ہسپتالوں میں پناہ لینے کے زود آزما نسخے فراہم کریں تاکہ کچھ تو حق دوستی ادا ہو۔ ورنہ الطاف بھائی بھی تو موجود ہیں جو انہیں بیرون ملک آنے کے 100 کامیاب طریقے اور بیرون ملک بیٹھ کر سیاست کرنے کے آزمودہ طریقے بھی بتا سکتے ہیں۔ یہ تو مشرف نجانے کس کے اشارے پر ملک واپس چلے آئے ورنہ لندن میں بیٹھ کر الطاف بھائی کے ساتھ مل کر ”خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو“ والی بات میں حقیقی رنگ بھر سکتے تھے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
کالاباغ ڈیم پر عمران خان نے یوٹرن لے لیا! شاید یہ نام ہی ایسا ہے کہ لفظوں کی سیاہی اس ڈیم کے رُخِ روشن پر زبردستی ملی جاتی ہے۔ جس ڈیم نے کروڑوں گھروں کو روشن کرنا ہے ہم نے اس روشنی کے استعارے کو ہی اندھیروں میں گم کر دیا ہے اور لاکھوں لوگ ....
ہر تیرگی میں تُو نے اتاری ہے روشنی
اب خود اُتر کے آ کہ سیاہ تر ہے کائنات
والے شعر کا ورد کرتے ہوئے کسی ایسے روشن چہرہ روشن دماغ اور روشن روح والے مسیحا کی آمد کے منتظر ہیں جو انہیں تاریکی کے تیرگی کے ان سوداگروں کے چنگل سے نکال کر روشنی کی طرف کا راستہ دکھائے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن بنائے۔
بہت سے لوگوں نے تو اس نام پر اعتراض دور کرنے کے لئے اس ڈیم کا نام تبدیل کرنے کا بھی مشورہ دیا اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ سندھی ہوں یا پنجابی، بلوچ ہوں یا پٹھان ہم سب ترقی، خوشحالی اور روشنی چاہتے ہیں تو آئیے مل جل کر ہم اس کا نام بدل کر خوشحالی یا روشنی رکھ دیں تاکہ ہمارے گھروں سے ملک سے معاشرے سے جہالت، غربت اور تاریکی کا راج ختم ہو ورنہ یہ پانی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بہت جلد پورے ملک کو صحرا میں تبدیل کر دے گی کیا تھر کی مثال ہمارے لئے کافی نہیں۔ اجڑتی بکھرتی زندگیاں ہمیں جگانے کے لئے کافی نہیں۔ یاد رکھیں بڑی بڑی تہذیبیں اس پانی کی قلت سے نیست و نابود ہو گئیں تو ہم تو ابھی صرف 67 بہاریں ہی دیکھ پائے ہیں۔ حوادث کی ایک لہر ہی ہمیں اوج ثریا سے اٹھا کر پاتال کی گہرائیوں میں غرق کر سکتی ہے۔ اگر ہمیں اپنے ملک کو، قوم کو بچانا ہے تو پھر کالاباغ ڈیم بنانا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
جے یو آئی نے آئی ڈی پیز کے حوالے سے خصوصی جرگہ بُلا لیا!
چلیں اسی بہانے مولانا فضل الرحمن اینڈ پارٹی کو کچھ نہ کچھ کرنے کا موقع تو میسر آ گیا۔ ورنہ کشمیر کا چیئرمین ہونے کے باوجود مولانا مسئلہ کشمیر سے لاتعلق رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔خیبر پی کے میں آئی ڈی پیز کی حالت نہایت خراب ہے۔ حکومت میں شامل دو جماعتیں دھرنوں اور جلسوں میں مصروف رہتی ہیں جس کے لئے افرادی قوت خیبر پی کے سے ہی فراہم کی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں توجہ متاثرین آپریشن کی بجائے سیاسی متاثرین پر زیادہ ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن نے ایک اچھے کام کی طرف دلائی ہے تو امید ہے مرکزی حکومت، اور خیبر پی کے کی حکومت بھی ان متاثرین کو صرف ووٹ ڈالنے کی مشینیں سمجھنے کی بجائے گوشت پوست کے اپنے جیسے انسان مان لے اور اس سخت موسم سرما کے میں تنہا نہ چھوڑے تو بہتر ہو گا ورنہ ضرب عضب کے بعد اگر ان متاثرین نے اپنا غصہ دکھانا شروع کر دیا ہے....
دیکھا جو میرا جلوہ تو دل تھام لو گے
کہاں تک جفاﺅں سے کام لو گے
والی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے اور پھر یہ تو معاملہ سنبھالے نہ سنبھلے گا، اس کا ہلکا پھلکا مظاہرہ گذشتہ دنوں کئی بارہو بھی چکا ہے۔
ہماری تمام سیاسی جماعتیں اربوں روپے کا سرمایہ رکھتی ہیں کھرب پتی لوگ ان جماعتوں کے عہدیدار ہیں مگر متاثرین کی امداد اور بحالی پروگرام میں ان کی جیب ڈھیلی نہیں ہو رہی، ہاں البتہ اگر کوئی تنظیم صرف ایک رقعہ ہی بھیج دے تو جیب تو کیا ان کی پینٹ بھی ڈھیلی ہو جاتی ہے۔ ایسا وقت آنے سے قبل یہی امید ہے حکمران ہو یا اپوزیشن یہ سب اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔

مزیدخبریں