پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس نے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عوام دونوں ہی کو تذبذب کا شکار کیا ہوا ہے۔ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری نے کسی سکرپٹ کا کردار بن کر نوزائیدہ جمہوریت کی کمر میں خنجر گھونپنے کی کوشش کی تو دوسرا نکتہ نظر ہے کہ یہ صورتحال ن لیگ کی حکومت کا زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ تیسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ عسکری قوتوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہ کرنے کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارا سیاسی نظام گزشتہ تین ماہ سے منفرد بحران کا شکار چلا آ رہا ہے۔حکومت ابھی تک اس بحران سے مکمل طور پر تو نہ نکل سکی ہے لیکن بہت حد تک حکومت کو سنبھالا مل گیا ہے۔حالیہ منظر نامے کا آغاز عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں، وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے اور نظام کو لپیٹنے کی تحریک سے شروع ہوا۔ واقعہ ماڈل ٹاﺅن کے معاملے کو دانشمندی سے حل نہ کرنے اور عمران خان کے عزائم کو بر وقت نہ پرکھنے کی وجہ سے معاملات حکومتی کنٹرول سے باہر ہو گئے۔ ماضی کے بر عکس پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جس جمہوری رویے کا اظہار کیا اسکی بناءپر پارلیمنٹ کے اتحاد نے سکرپٹ رائیٹر اور دونوں کرداروں کے عزائم کو نا کام بنا دیا۔رہی سہی کسر جاوید ہاشمی کے انکشافات نے پوری کر دی۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی بروقت انٹرویو کے ذریعے جمہوریت کو سہارا دیا۔میڈیا کی اکثریت بھی جمہوریت کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتی رہی۔ سب سے بڑھ کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جمہوریت سے اپنی کمٹمنٹ کا عملی اظہار کر کے ملک کو ایک بڑے سیاسی بحران سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا،اگر ان کی نیت صائب نہ ہوتی تو باقی عوامل کی حیثیت ضمنی ہی رہتی ۔علامہ طاہر القادری کو جب صورتحال ہاتھ سے نکلتی نظر آئی تو انہوں نے ہلا شیری دینے والوں کی مرضی کے خلاف دھرنا ختم کر کے عمران خان کو ڈی چوک میں اکیلا چھوڑ دیا۔عمران خان نے ضد کی راہ اپنائی اورشہر شہر جلسوں کا کھیل شروع کر دیا۔غیر جانبدارمبصرین جب بھی ان دھرنوں کا تجزیہ کریں گے تو یہ ضرور کہیں گے کہ عمران خان اور طاہر القادری کھیل تو کسی اورکا کھیل رہے تھے لیکن حالات نے انہیں ایک تاریخی موقع دیا تھا کہ وہ پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظام میں دور رس اصلاحات کروا سکتے تھے،یہ اصلاحات گزشتہ اڑسٹھ سالوں میں بوجوہ نہ ہو سکی تھیں۔اس تحریک کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ حکومت صرف وزیر اعظم کے استعفیٰ کے علاوہ ہر مطالبے کو ماننے ، قانون سازی کرنے اور آئینی ترامیم لانے پر تیار تھی۔ تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں اور میڈیا بھی ان مطالبات کے حق میں تھا۔حتیٰ کہ طاہر القادری صاحب بھی بہت حد تک نرم رویہ اختیار کرنے پر تیار نظر آتے تھے لیکن عمران خان کی ہٹ دھرمی نے اس تاریخی موقع کو بے ثمر کر دیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ہمارے انتخابی نظام میں نیک نیتی سے اصلاح ہو جائے تو شخصی اور موروثی سیاست اپنی موت آپ مر جائیگی۔طاہر القادری صاحب تو اپنی ناکامی میںکامیابی کی راہیں ڈھونڈرہے ہیں۔لیکن عمران خان تاحال جذباتی اور زخمی شیر بنے ہوئے ہیں وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو صرف کیے جا رہے ہیں۔اب بھی ان کیلئے راستہ موجود ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی مشاورت سے ایسالائحہ عمل طے کریں کہ انتخابی اصلاحات کا سہرا ا ن کے سر جا سکے۔اس طرح وہ آئندہ الیکشن میں بہتر پوزیشن پر ہونگے۔ انتخابی اصلاحات کے بغیر اگر مڈ ٹرم یا ری الیکشن ہو بھی جائیں تب بھی عمران خان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔موجودہ انتخابی نظام میں راستہ ڈھونڈنے اور حلقہ کی سیاست کرنے میں جو مہارت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو حاصل ہے اس میں تحریک انصاف کے ہاتھ کچھ نہ آئیگا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی خیبر پختون خواہ میں اتحادی بھی ہیں۔ عمران خان اگر جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر ان اصلاحات کی جانب سنجیدگی سے بڑھیںتو اکثر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانے میں دقت نہ ہو گی ۔شرط صرف یہ ہے کہ عمران خان ذاتی طور پر یہ تسلیم کر لیں کہ انکے دھرنے ناکام ہو گئے ہیں تب ہی وہ آگے بڑھنے کا راستہ پا سکیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ "کامیابی کا زینہ ، ناکامیوں کے زینے سے مل کر بنا ہے" عمران خان کیلئے ابھی پاکستانی سیاست میں بڑی گنجائش ہے۔ وہ عوام کے ایک متحرک سیاسی طبقے کی امید اور رول ماڈل ہیں۔انہیں اپنے پیروکاروں کو مایوس نہیںکرنا چاہئیے۔ عمران خان کو اپنے دائیں بائیں کھڑے خود غرض اور خود پسند سیاستدانوں پر بھی نظر رکھنی چاہئیے کیونکہ اگر صاف ستھری سیاست کا وقت آ گیا تو عمران خان کیلئے تو راہ موجود ہو گی لیکن یہ خود غرض اوربے دست و پا سیاستدان جگہ نہ پا سکیں گے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان چند لوگوں نے عمران خان کی آنکھ میں دھول اور کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔اس حوالے سے عمران خان کو اپنی پارٹی کے اصلی جانثاروں سے کھل کر رائے لینی چائیے۔عمران خان کو یقینا اس بات کا احساس بھی ہو گا کہ پیپلز پارٹی اپنی ساکھ اور سیاست کھوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں عمران کی انقلابی شخصیت پیپلزپارٹی کے حامیوں اور ووٹرز کیلئے ن لیگ کے حامیوں کی نسبت زیادہ کشش رکھتی ہے، انہیں ن لیگ کو ہدف اول رکھنے کی بجائے اپنا اولین حدف تبدیل کرنا ہو گا۔ممکن ہے اس طرح وہ ایک بڑی اور قومی جماعت کی حیثیت جلد ہی حاصل کر سکیں۔
عمران خان کو اپنے جلسوں اور تقاریر میں اپنے ساتھی مقررین کو بازاری اور عامیانہ زبان استعمال کرنے سے روکنا ہو گا۔مہذب معاشرے اور جمہوری رویے اس انداز کو پسند نہیں کرتے۔عمران خان کو یقینا اس امر کا ادارک ہو گا کہ "Politics is a game of calculations" اس میں ضروری نہیں آپ ہر بار کامیاب ہی ہوں۔ اسکے علاوہ سیاست میں شارٹ ٹرم مقاصد رکھنے والے لیڈرز جلد ہی ناکام ہو جاتے ہیں جبکہ سیاست میں لانگ ٹرم مقاصد اور حکمت عملی رکھنے والے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں طویل عرصے تک حاوی رہتی ہیں۔عمران خان T-20اور ون ڈے کی بجائے ٹیسٹ میچ کا رویہ اختیار کریں۔ فاسٹ بالر اور ہٹر کی بجائے سیاسی پچ اور فیلڈ کو دیکھتے ہوئے باولنگ اور بیٹنگ کریں تووہ کامیابی حاصل کر سکیں گے۔ بصورت دیگر وہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں بمشکل کوئی مقام حاصل کر سکیں گے۔
بعض مبصرین کی یہ رائے بھی بڑی وزن رکھتی ہے کہ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اگر ن لیگ کو آئندہ دو سال دلجمعی اور سکون سے کام کرنے کا موقع مل گیا تو تحریک انصاف اس کا مقابلہ نہ کر سکے گی۔ اس لیے ن لیگ کیلئے مسائل پیدا کرنے ہی میں تحریک انصاف کا فائدہ ہے۔ یہ رائے اپنی جگہ ضرور اہم ہے لیکن قانون قدرت ہے کہ جو کسی کیلئے گڑھے کھودتا ہے وہ خود بھی اس میں گرتا ہے۔ اس حوالے سے ایسی سوچ رکھنے والوں کو منفی کی بجائے مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئیے۔ پاکستانی سیاست میں ابھی بڑی گنجائش ہے یہ مقام مثبت انداز میں ہی حاصل کیا جانا چائیے تا کہ کام میں برکت رہے۔ مولانا رومی ؒ کہتے ہیں کہ"تمھاری اصل ہستی تمھاری سوچ ہے ، باقی تو صرف ہڈیاں اور گوشت ہے©"۔