ہم ملک کی تمام سپورٹس فیڈریشنز کی طرف سے یہی دہائی سنتے ہیں کہ پیسہ نہیں ہے، فنڈز نہیں ہیں، کھیلوں کی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے، کھلاڑیوں کا کوئی معاشی مستقبل نہیں ہے. یہ بھی سنا جاتا ہے کہ مختلف کھیلوں میں پیسے کی کمی کی وجہ سے کھلاڑیوں کا شوق بتدریج کم بھی ہو رہا ہے۔ لیکن کرکٹ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔کھیلوں کی تنظیموں میں پاکستان کرکٹ بورڈ مالی لحاظ سے سب سے مستحکم اور مضبوط ادارہ ہے۔ کرکٹرز بھی کروڑوں بعض تو اربوں میں بھی کھیلتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں آج بھی جیسے تیسے کرکٹ ہی مقبول ترین کھیل مانا جاتا ہے۔ اس کے کھیلنے، دیکھنے، لکھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی مالی مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی حیران کن طور پر مسلسل پی سی بی کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہم سنتے آ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے، کیا یہ دیوالیہ ہونے کی مہم باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلائی جا رہی ہے،کیا واقعی پاکستان کرکٹ بورڈ کی مالی حالت کمزور ہو رہی ہے، کیا پی سی بی خسارے میں جا رہا ہے، کیا واقعی آئندہ چند ماہ میں کرکٹ بورڈ کا خزانہ خالی ہو جائیگا اور مالی لحاظ سے ملک کے سب سے مضبوط اور مستحکم ادارے کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اگر واقعی حالات اتنے خراب ہو رہے ہیں تو کیا خرچے کنٹرول کیے جارہے ہیں، سب سے اہم سوال کہ یہ دیوالیہ ہونے کی گردان کیوں کی جارہی ہے؟
ان سوالات میں سے اکثر کا جواب نفی میں ہے. پاکستان کرکٹ بورڈ کا خزانہ بھرا ہوا ہے اور اسکو فوراً کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نا ہی بورڈ خسارے میں ہے۔ نا ہی مستقبل میں کرکٹ بورڈ کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ دیوالیہ ہونے کی باتیں باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ خرچے قابو میں رکھنے کے بجائے بڑھائے جا رہے ہیں اور ان خرچوں کو درست اور وقت کی ضرورت ثابت کرنے کے لئے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے تاکہ آنے والے وقت میں اگر کوئی مسئلہ سامنے بھی آئے تو ہاتھ جھاڑ کر ایک طرف ہو جائیں کہ ہم تو پہلے سے ہی کہ رہے تھے کہ معاملہ بگڑ رہا ہے۔
اب یہ سارا شور ہے کیوں؟
اسکا جواب یہ ہے کہ ایک ٹولہ کرکٹ بورڈ پر حکمرانی کر رہا ہے اسے حکومتی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ یہ ٹولہ کرکٹ بورڈ کے خزانے پر دل کھول کر ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ من پسند افراد کی خدمات انکی خواہش کے مطابق بھاری تنخواہوں پر حاصل کی جا رہی ہیں. واقفان حال بتاتے ہیں کہ دل پسند افراد کو قانون سے ہٹ کر ترقیاں اور تنخواہوں میں بھاری اضافہ تحفہ کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ کیا ایسے اقدامات دیوالیہ ہونے کے قریب ادارے میں کئے جاتے ہیں۔ اگر دیوالیہ ہونے کا اتنا ہی خدشہ ہے تو پھر پاکستان سپر لیگ کے چند عہدے داروں کے سفری سہولیات اور قیام و طعام کے لیے 20 ملین یا اس سے زائد رقم چند ماہ میں کیسے ختم ہو گئی.اب مزید پیسوں کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہو گا یقیناً مل بھی گئے ہونگے۔ کرکٹ بورڈ دیوالیہ ہونے جا رہا تو پھر پاکستان انگلینڈ کرکٹ سیریز کے دوران شائقین کو سٹیڈیم تک لانے کے لیے تشہیری مہم کے نام پر 30 ملین یا اس سے زائد رقم کیوں خرچ کی گئی، اگر بورڈ واقعی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو پ?ر بڑے بڑے خرچے سپانسرز کے کھاتے میں ڈالنے کی کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں۔ اگر واقعی خزانہ خالی ہو رہا ہے تو یہ بھاری اعزازیہ پر بورڈ آفیشلز کے بیرون ملک دورے کس خوشی میں کیے جا رہے ہیں۔
یہ چند حقائق ہیں جو انتہائی احتیاط کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ بورڈ میں ہونے والی ترقیاں اور شاہ خرچیاں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ دیوالیہ ہونے کا کوئی خدشہ موجود نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ کرکٹ بورڈ کے خزانے کو خالی کرنے کا ہدف مقرر نا کر رکھا ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دیوالیہ ہونے کی مہم اس کئے چلائی جارہی ہے کہ لوگ شاہ خرچیوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے کسی اور طرف لگ جائیں.سب کو مستقبل کی فکر کھانے لگے اور چند افراد کرکٹ اور کرکٹرز کی فلاح کے بجائے اپنی ذات کو سامنے کرتے ہوئے موج کرتے رہیں۔