مخدوم امین فہیم پرانی قدریں لے کر رخصت ہوئے

لاہور کے سرکلر روڈ پر شاہ عالمی مارکیٹ کے چوک میں بانسانوالہ بازارکی نکڑ پر ”ایماں کی حرارت والوں“ نے شب بھر میں ایک مسجد تعمیر کر ڈالی تو اقبال کو اپنا ”پاپی من“ یاد آگیا۔جو کئی برس گزرنے کے باوجود بھی نمازی نہیں بن پایا تھا۔

میرے دور کے ”ایماں کی حرارت والوں“ کو شب بھر میں کسی مسجد کی تعمیر کا تردد کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ چند نابغوں نے جو اگرچہ پیدائشی مسلمان ہونے کی نعمت سے محروم رہے تھے، دریافت کرلی انٹرنیٹ کے ذریعے نیک خیالات کو فروغ دینے کی سہولت۔ اپنا ٹویٹر اکاﺅنٹ کھولو اور اُلٹی سیدھی زبان میں جو چاہے لکھ کر اپنے پارسا من کو تسکین پہنچادو۔
فروغ پارسائی کے مشن پر ا پنے تئیں مامور افراد کی زبان اور رویے نے مجھے بہت عرصے تک کافی پریشان رکھا۔ اس پریشانی کے مداوے کی کوئی صورت نہ بنی تو پتھرہوئے دل کو مزید لاتعلق بنالیا۔ کل رات مگر حد ہوگئی۔ اپنے بستر پر لیٹا تلملاتا رہا اور پوری رات اس خوف میں مبتلا رہا کہ فروغ پارسائی کے مشن پر اپنے تئیں مامور ان افراد کو حقیقی معنوں میں قوت واختیار میسر آگیا تو اس ملک کے ہر چوک پر جانے کتنی لاشیں لٹکتی نظر آئیں گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم کئی مہینوں سے کینسر کے مہلک مرض میں مبتلا تھے۔ ہفتے کی صبح ان کے انتقال کی خبر آگئی۔ عام مسلمان ایسی خبر سن کر انسان کے بالآخر مٹی میں مل جانے کی حقیقت کو ایک قرآنی آیت پڑھ کر ندامت سے اپنے انجام کے بارے میں سوچنا شروع ہوجاتا ہے۔
میرے دور کے ”ایماں کی حرارت والوں“ نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ اکثریت ان کی اپنی تصویریں لگاکر عمران خان سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔ ان میں سے چند پارسا اس کی جماعت میں کوئی ضلعی نوعیت کا عہدہ حاصل کرنے پر بہت شاداں بھی نظر آتے ہیں۔ ایسے افراد کی اکثریت نے بڑی رعونت سے لوگوں کو یاد دلانا شروع کردیا کہ امین فہیم پر کرپشن وغیرہ کے کئی الزاما ت بھی تھے۔ ”قومی خزانے سے لوٹی دولت“ کی واپسی کے امکانات ان کی موت کے بعد باقی نہیں رہے۔ ہمارا میڈیا مگر اتنا ”بے حس“ ہوچکا ہے کہ امین فہیم کی وفاداری، بردباری اور شریف النفسی کے گن گائے چلاجارہا ہے۔
اندھی نفرت میں مبتلا ان بیمار ذہنوں کے خیالات پڑھ کر دل کانپ اُٹھا۔ ایک بار پھر یہ بات خوب سمجھ آگئی کہ ”صحیح اسلام“ کے طلب گار جنونیوں کو دوسرے انسانوں کے گلے کاٹنے پر کونسی سوچ مجبور کردیتی ہے۔ اس کے بعد یاد آگئی صوفیاءکی مشقیں جو وہ اپنے دلوں میں گداز پیدا کرنے کے لئے خود پر طاری کرتے تھے اور مرتے دم تک اس بارے میں شرمسار کہ ان کے دل رحم کے جذبات کے ذریعے کامل طورپر رقیق نہ ہوپائے۔
1988ءتک میں نے امین فہیم کا نام تو سنا تھا مگر ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اس سال ضیاءالحق کی ایک فضائی حادثے میں موت کے بعد عام انتخابات ہوئے تو قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہوگئی۔ اس اکثریت کے باوجود اس وقت کے اپنے تئیں پارسا بنے صدر، غلام اسحاق خان جنہیں آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت وزیر اعظم کی نامزدگی کا اختیار حاصل تھا، بے نظیر بھٹو سے حلف لینے کو تیار نہیں ہورہے تھے۔
پیپلز پارٹی کی مشکل کو بظاہر آسان کرنے کے لئے مرحوم جنرل حمید گل کے ادارے سے وابستہ چند افرادنے سیاست دانوں پر بنائی فائلوں سے رجوع کیا۔ راولپنڈی کے بقراط عصر کو خبر مل گئی کہ ہالہ کے مخدوم امین فہیم کو بآسانی وزیر اعظم نامزد کیا جاسکتا ہے۔ اب لال حویلی کے مکین کو فکر طاری ہوگئی کہ ہالہ کے مخدوم سے رابطہ کیسے ہو۔ بزرگ سیاستدان چودھری انور عزیز کو پیغام لے جانے پر آمادہ کیا گیا۔ مجھ تک خبر پہنچی تو اسلام آباد میں امین فہیم کا ٹھکانہ ڈھونڈ کر وہاںپہنچ گیا۔ ان سے ملتے ہی فوری حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ میری تحریروں سے خوب واقف تھے۔ میری خبر کی انہوں نے ہرگز تردید نہ کی۔ عاجزانہ مسکراہٹ سے کہا تو صرف اتنا کہ میرے خون میں بے وفائی شامل نہیں۔
وفاداری بشرطِ استواری والا یہ رویہ مخدوم صاحب نے مرتے دم تک برقرار رکھا۔ غالب ایسی وفاداری کے بدلے برہمن کو کعبے میں گاڑنے پر تیار ہوگیا تھا لیکن ہمارے پارسا....خدا ان کے دلوں میں نرمی پیدا کردے۔
1988ءکا واقعہ میں نے اس لئے لکھا ہے کہ اس کے بارے میں ہمارے لوگوں کی اکثریت کو ہرگز علم نہیں۔ 1990ءمیں محترمہ کی حکومت کو برطرف کرنے سے پہلے بھی مخدوم امین فہیم کو ایسا ہی پیغام پہنچایا گیا تھا۔ پرویز مشرف نے تو اقتدار پر قابض ہونے کے فوراََ بعد یہ طے کرلیا تھا کہ بالآخر جب ہر آمر کی طرح انہیں بھی جمہوری نظام کو بحال کرنا پڑا تو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے ترجیح مخدوم امین فہیم کو دی جائے گی۔
2002ءمیں جب وہ انتخابات کروانے پر مجبور ہوا تو اس کی چہیتی قاف لیگ کو سادہ اکثریت بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی، ایم ایم اے کے ساتھ مل کر بآسانی اپنا وزیر اعظم لاسکتی تھی۔ جیل میں بیٹھے آصف علی زرداری کو مگر یقین تھا کہ پیپلز پارٹی کا نامزدکردہ وزیر اعظم قبول نہیں کیا جائے گا۔ نواب زادہ نصراللہ خان کی معاونت سے کوشش شروع ہوگئی کہ جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن کو مخلوط حکومت کا وزیر اعظم بنوادیا جائے۔ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانہ ”طالبان کے حامی اس مولوی“ کا نام سن کر چراغ پا ہوگیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو واضح پیغامات پہنچادئیے گئے۔ وہ تذبذب میں مبتلا رہیں اور چودھری شجاعت حسین نے بلوچستان سے ”پاکستان کا پہلا وزیر اعظم“ دریافت کرلیا۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بن گئے اور آصف علی زرداری کے دل میں گرہ لگ گئی کہ ان کے مولانا فضل الرحمن والے منصوبے کو امین فہیم کے دیرینہ اور وفاداردوست انور بیگ نے پروان نہیں چڑھنے دیا تھا۔
انور بیگ کی امین فہیم سے یہ محبت 2008ءکے انتخابات کے بعد تو ان کے لئے عذاب کی صورت اختیار کرگئی۔ لوگ سمجھ ہی نہ پائے کہ پنجاب کے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنواکر زرداری خود ایوانِ صدر پہنچنا چاہ رہے ہیں۔ مشرف کے استعفے کا مگر ان دنوں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ان کو بھیجنے کی گیم اگرچہ کئی ماہ قبل طے ہوچکی تھی۔ زرداری کو اس کا بخوبی علم تھا۔ امین فہیم اور انور بیگ یہ گیم سمجھ نہ پائے۔ اقتدار کے کھیل میں تنہاءہوگئے۔
امین فہیم اس تنہائی کو زیادہ عرصہ برداشت نہ کر پائے۔ آصف علی زرداری سے معاملات طے کرلئے اور یوسف رضا گیلانی کے سینئر وزیر ہوگئے۔ پیپلز پارٹی سے مکمل اجنبیت صرف انور بیگ کا مقدر ہوئی۔ اپنے اقتدار کے روشن امکانات کے باوجود ایک نہیں تین بار اپنی جماعت سے بہت کڑے وقتوں میں اپنی وفا نبھا کر امین فہیم نے ان قدروں کو برقرار رکھا جو ”خاندانی لوگوں“ سے منسوب کی جاتی ہیں۔ آج ایسی قدروں کو ”جاگیر دارانہ“ قرار دے کر ٹھکرادیا گیا ہے اور ٹی وی سکرینوں پر ہیرو بنے ہوئے ہیں ذوالفقار مرزا- ان کی اہلیہ اور فرزندِ ارجمند اب بھی قومی اور سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی دی ہوئی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہیں مگر آصف زرداری کے اصل ”ویری“ ثابت ہورہے ہیں ان کے بچپن کے دوست ذوالفقار مرزا عرف طوطی۔جرا¿ت اور بہادری کی ایک نئی علامت جن کے ”عروج“ میں ہی ان کے زوال کی نشانیاں بہت عیاں ہیں۔
ہم مگر ایک ہیجانی دور سے گزررہے ہیں۔آج کا دور فروغِ پارسائی پر اپنے تئیں مامور افراد کی شعلہ بیانیوں کا دور ہے۔ اندھی نفرتوں میں مبتلا ذہن والوں کے دل سفاک ہوچکے ہیں۔ دلوں میں سوزوگداز کے زمانے لد گئے۔اچھا ہوا مخدوم امین فہیم ایک محبت بھرے دل کے ساتھ پرانی قدریں اپنے ساتھ لے کر اس دُنیا سے رخصت ہوئے جو معاف کردینے پر سوزدلوں سے دھڑادھڑ خالی ہوتی جارہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...