فی زما ہ قوم کو چوں کہ موبائل فو پر واٹس ایپ وغیرہ سے فرصت ہیں لہٰذا تاش صرف وہی کھیلتے ہیں ج ہیں جوئے وغیرہ کا شوق یا مجبوری ہو۔ جب پاکستا ب ا تو قوم کے پاس بہت زیادہ فالتو وقت تھاتوشہر وںاور بڑے قصبات میں تاش کے کھیل کھلیے جاتے تھے۔ ہرچ د کہ اُس وقت کے بزرگ تاش کو م حوس قرار دیتے تھے مگر کہیں ہ کہیں تُرپ چال، کوٹ پیس، سویپریا بغیر پیسے کے رمی وغیرہ کی پھڑیں جما کرتی تھیں۔ ترپ چال یا کوٹ پیس میں ر گ ما گا جاتا تھا یع ی پہلے پا چ پتوں میں ای ٹ، حکم، چڑیا یا پا کے ر گ ما گے جاتے تھے ۔ اُس ر گ کو ترپ ر گ ما ا جاتا تھا اور اس کی دُکی بھی بادشاہ یا یکے کو کاٹ سکتی تھی۔ ارے یہ کیا ہم آپ کو تاش کا کھیل سکھا ے بیٹھ گئے۔آج کل تُرپ کا ہیں ٹرمپ کا زما ہ ہے۔ ٹرمپ ا گریزی میں تُرپ کے پتے کو ہی کہتے ہیں۔ اور تُرپ کا یہ پتا امریکہ کا صدر ڈکلئیر کر دیا گیا ہے۔ ویسے تو امریکی صدور میں کوئی خاص فرق اس لیے بھی ہیں ہوتا کہ سب کے سب سی آئی اے کی ہی ماتحتی کر تے ہیں۔ اگر کبھی کبھار صدر صاحب سی آئی اے کا حکم ہ ما یں توکوئی ہ کوئی ا سکی ڈل ب وا کر صدر کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ جو تُرپ کا پتا صدر ب ا ہے تو ایک کرم فرما ے واٹس ایپس پر صدرِ امریکہ کے دفتر میں پہلے د کا حال بزبا ِ ا گریزی درج کر دیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:سی یہ ہے کہ ٹرمپ صاحب ابھی ابھی اپ ے دفتر میں براجما ہوئے ہیں۔ اُ کی خدمت میں سی آئی اے، ایف بی آئی، پی ٹاگا وغیرہ حاضرہیں تا کہ صدر کو پہلی بریف گ دے سکیں کہ صدرِ امریکہ کو اب کیا کر ا ہے اور کیا ہیںکر ا۔ ٹرمپ صاحب چوں کہ ریاستی، سیاسی، اخلاقی ، معاشرتی، معیشی، بی الاقوامی، خارجی، داخلی، ج گی، تجارتی وغیرہ معاملات میں ا اڑی ہیں اور صرف جوئے، شادی بیاہ اور ماڈلز وغیرہ کے معاملات میں ہی ڈیل کرتے رہے ہیں تو یہ بریف گ ا تہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ اس بریف گ کے بعد جو بریف گ د یا کو ،توڑ مروڑ کے بعد، وہائیٹ ہاو¿س کی جا ب سے کوئی چھریری سی سیکرٹری دے گی اُس پر ساری د یا آ کھ اور کا لگائے ہوئے ہے کیوں کہ یہ طے ہے کہ وہائیٹ ہاو¿س کی طرف سے بریف گ کافی م ہ چت لگتی ہُوا کرتی ہے۔خیر آئیے پہلے تو ا درو ی کہا ی س یں: ٹرمپ: تم سب کی تعریفوں کا بہت بہت شکریہ۔ تم سب ے مجھے سابقہ صدور کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور تعریفوں کے پُل تعمیر کر لیے ہیں ۔ ا پلوں کا ٹھیکہ امید ہے تم ے پاکستا کے سب سے بڑے وزیرِ اعلیٰ کو ہی دیا ہو گا کہ اُ کا تجربہ تعمیراتی کاموں کا سب سے بڑھ کر ہے۔تاہم اب کام کی باتیں ہو جائیں۔ میرے زدیک اس وقت د یا کا سب سے بڑا مسئلہ آئی ایس آئی ایس یع ی داعش ہے۔ تو میری سب سے پہلی اوربڑی ترجیح ہو گی اس ت ظیم کو تباہ کر ا۔ اور اس پر فوری عمل
سی آئی اے: (باچھیں چیرتی مسکراہٹ کے ساتھ بات کاٹتے ہوئے)یہ ہیں ہو سکے گا سر۔ ہمیں ے تو اس ت ظیم کو کئی اور ممالک کے ساتھ مل کر ، ج میں کئی مسلم ممالک بھی شامل ہیں،تخلیق کیا تھا۔
ٹرمپ: (چڑ کر اور ج جھلا کر) ہم ے ہیں اسے ڈیموکریٹس ے ج م دیا تھا۔
سی آئی اے: (سہج سبھاو¿ کے ساتھ ’ہم‘ پر زور دیتے ہوئے)ہم ے ج م دیا تھا سرکیوں کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں سب ایک ہیں۔ ہمیں اس عسکری ت ظیم کی ضرورت ہے ور ہ ہم قدرتی گیس لابی کے ف ڈز سے محروم ہو جائیں گے۔
ٹرمپ: (مسکراتے ہوئے سہج اور سبھاو¿ کے ساتھ کچھ بھی ہ سمجھتے ہوئے)پاکستا کے ف ڈز روک دو۔ بھارت کو پاکستا سے بٹ ے دو۔
سی آئی اے: ہم یہ ہیں کر سکتے سر۔
ٹرمپ؛ کیوں ہیں کر سکتے؟
سی آئی اے: ا ڈیا بلوچستا کو پاکستا سے کاٹ کر رکھ دے گا۔
ٹرمپ: مجھے اس کی کوئی پروا ہیں ۔
سی آئی اے: یوں ا ڈیا کو کشمیر میں ام قائم کر ا پڑ جائے گااور پارٹیاں ہم سے ج گی ساما خرید ا ب د کر دیں گی ، ا ڈیا سپر پاور ب جائے گا اور ہمیںپاکستا کو بڑی بڑی رقمیں دی ا پڑ جائیں گی تا کہ پاکستا بھارت کو کشمیر میں مصروف رکھ سکے۔
ٹرمپ:(اچا ک ئے خیال کے ساتھ چٹکی بجاتے ہوئے)آہ! لیک تمہیں طالبا کو ہر حال میںتباہ و برباد کر ا ہو گا۔
سی آئی اے:(سپاٹ لہجے میں)سر ہم یہ ہیں کر سکتے۔ طالبا کو ہم ے ہی تو اسی۸۰ کی دہائی میں تخلیق کیا تھا تاکہ روسی ریچھ کو قابو کیا جا سکے آج وہ پاکستا کو ایٹمی ہتھیاروں سے دور اور مصروف رکھے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ: ہمیں مڈل ایسٹ کی اُ ریاستوں کو تباہ کر ا ہو گا جو دہشت گردی کوا سپا سر کرتی ہیں۔ ہمیں سعودی عرب سے ابتدا کر ا ہوگی۔
پی ٹا گا :(بےتابی سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے) سر! ہم ایسا ہیں کر سکتے!(ٹرمپ تیوری چڑھا کر دیکھتا ہے)ہم ے ہی تو یہ ریاستیں قائم کی تھیں تاکہ ا کا تیل ای ٹھ سکیں۔ ہم ا ریاستوں میں جمہوریت ہیں مچا سکتے ور ہ تیل پر ا کے عوام کا قبضہ ہو جائے گا اور ہم ا کے عوام کا تیل پر قبضہ افورڈ ہیں کر سکتے۔
ٹرمپ:( اُٹھ کر چ د قدم ٹہلتا ہے) ہوں تو پھرہمیں ایرا پر چڑھائی کر دی ا چاہئیے۔
پی ٹاگا : ہم یہ بھی ہیں کر سکتے سر۔(ٹرمپ رک کر سوالیہ ا داز میں دیکھتا ہے) ہم ایرا سے بات چیت کر رہے ہیں سر۔
ٹرمپ: کیسی بات چیت اور کیوں؟؟
سی آئی اے: ہم اپ ے خُفیہ ڈرو اُ سے واپس ما گ رہے ہیں سر۔اگر ہم ے ایرا پر حملہ کر دیا تو روس ہمیں اُسی طرح وہاں سے اکھاڑ پھی کے گا جیسے اُس ے ہمارے ساتھی آئی ایس آئی ایس کو شام سے اکھاڑ پھی کا ہے۔مزید یہ کہ سر
ہمیں اسرائیل کوقابو میں رکھ ے کے لیے ایرا کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ:(بیٹھتے ہوئے حتمی طور پر)اچھا تو ہمیں پھر سے عراق پر حملہ کر دی ا چاہئیے۔
سی آئی اے: سر ہمارے دوست آئی ایس آئی ایس عراق کے ایک تہائی حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔
ٹرمپ: یہ کیا بات ہوئی ؟ پورے عراق پر اُ کا قبضہ کیوں ہیں ہُوا؟
سی آئی اے: ہمیں آئی ایس آئی ایس کو قابو میں رکھ ے کے لیے عراقی شیعہ حکومت کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ: میں مسلما وں کا امریکہ میں داخلہ ب د کر رہا ہوں۔
ایف بی آئی:ہم ایسا ہیں کر سکتے سر۔(ٹرمپ غُصّے میں آکر کھڑا ہو ے لگتا ہے)ایسا کیا تو ہماری اپ ی آبادی بے خوف ہو جائے گی۔
ٹرمپ: (ٹھ ڈا ہو کر بیٹھتے ہوئے) ٹھیک ہے تو میں تمام غیر قا و ی مہاجری کوج وبی سرحد کی طرف دیس کالا دے رہاہوں۔
سرحدی حفاظتی ا چارج: آپ ایسا ہیں کر سکتے سر۔
ٹرمپ:(سر کے بال وچتے ہوئے)کیوں ہیں کر سکتا میاں؟
سرحدی حفاظتی ا چارج: اگر ا کو کال باہر کیا تو سرحدی دیوار کو تعمیر کرے گا؟
ٹرمپ: اچھا تو میں H1B ویزے ب د کر ے لگا ہوں۔
USCIS : آپ یہ ہیں کر سکتے سر۔
ٹرمپ: اور کیوں ہیں؟
چیف آف ا سٹاف: اگر آپ ے ایسا کیا تو ہمیں وہائٹ ہاو¿س کے تمام آپریش ز کو ب گلور کی آئی ٹی فرموں کو آو¿ٹ سورس کر ا پڑ جائے گا اور ب گلور بھارت میں ہے۔
ٹرمپ: (پسی ے میں ہا چکا ہے) تو پھر میں صدر کے طور پر کیا کروں؟؟؟
سی آئی اے: آپ وہائٹ ہاوس کو ا جوائے کریں سر۔ باقی معاملات ہم دیکھ لیں گے۔
ٹرمپ ایک آہِ سرد بھرتا ہے ، ماتھے اور گلے کا پسی ہ پو چھتا ہے، فو اُٹھاتا ہے،” لاس ویگاس میں میرے کیسی و مبر د س سے ملاو¿“۔ اور ملاقاتی ایک ایک کر کے جھکتے ہوئے باہر کل جاتے ہیں اور د یا ویسے ہی چلتی رہتی ہے۔