پاک افغان سرحد پر ’’بارڈر مینجمنٹ‘‘ کا تنازع!

Nov 23, 2016

خالد بیگ

شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے‘ وہاں قائم خودکش بمبار و بارود سے بھری گاڑیاں تیار کرنے والی فیکٹریاں اور اسلحہ و گولہ بارود کے ذخائر ختم کرنے کے بعد پاک دشمن قوتوں نے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا کر وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے۔ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہو یا بعدازاں پیش آنے والے خودکش حملوں کے بیشتر واقعات‘ ان سب کی تحقیقات کے نتیجے میں ایک بات واضح طورپر ابھر کے سامنے آئی کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے تمام افراد چاہے وہ تاجک یا ازبک تھے‘ ان کا تعلق پاکستان سے تھا یا وہ افغان شہری تھے‘ دہشت گردی کیلئے براہ راست افغانستان سے ہی بھیجے گئے۔ اس کے بعد ہی حکومت پاک افغان بارڈر سے آزادانہ اور بنا کسی روک ٹوک کے آمدورفت کی طرف متوجہ ہوئی جہاں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بناشناخت اور سفری دستاویزات کے لوگوں نے آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ طورخم کا مقام تو رہا ایک طرف‘ اس کے علاوہ بھی بارڈر کے ایسے بہت سے مقامات پر کچے پکے خفیہ راستوں کی نشاندہی ہوئی جو آر پار سمگلنگ کیلئے زیراستعمال تھے۔ پاکستان نے طورخم کے بارڈر پر گیٹ لگانے اور آزدانہ آمدرفت پر قدغن لگا کر ہر آنے جانے والے کیلئے پاسپورٹ کی شرط لازمی قرار دینے کا فیصلہ کر لیا جوکہ قانونی یا سفارتی طورپر بالکل جائز اور دو ملکوں کے درمیان سفر کرنے والوں کیلئے عالمی سطح پر رائج ضابطوں کے عین مطابق تھا‘ لیکن افغان حکومت نے پاکستان کی طرف سے ’’بارڈر مینجمنٹ‘‘ کے فیصلے کی مخالفت شروع کر دی حالانکہ افغان حکام گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ و نیٹو کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مل کر الزام لگاتے رہے ہیں کہ افغانستان میں کارروائیاں کرنے والوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ پاکستان سے امریکی ’’ڈو مور‘‘ مطالبے کا مطلب بھی یہی تھا کہ پاکستان ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ کے الزامات اور ’’ڈو مور‘‘ مطالبوں سے تنگ آکر پاکستان نے 2008ء میں افغانستان کو بارڈر پر باڑ لگانے کی تجویز دی جو نہ صرف افغان صدر حامد کرزئی نے مسترد کر دی بلکہ پاکستان میں بھی کچھ سیاسی شخصیات نے اس کی مخالفت شروع کر دی حالانکہ اگر اس وقت باڑ لگانے کا پاکستانی مطالبہ تسلیم کر لیا جاتا تو شاید دونوں ممالک میں اس قدر خون نہ بہتا‘ لیکن دونوں ملکوں میں وہ تمام عناصر جنہیں سی آئی اے‘ این ڈی ایس اور ’’را‘‘ مل کر کنٹرول کر رہے تھے‘ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ باڑ لگنے کی صورت میں پاکستان میں دہشت گردی یا خودکش دھماکوں کا خونی کھیل جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا‘ تاہم بلوچستان میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے ’’را‘‘ کے اعلیٰ افسر کلبھوشن یادیو اور خیبر پی کے میں متحرک درجنووں افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے آپریٹرز کی گرفتاری نے پاکستان میں افغانستان سے ملحقہ سرحد پر باڑ کے علاوہ طورخم پر گیٹ کی تنصیب کی مخالفت کرنے والوں کا منہ تو بند کر دیا‘ لیکن افغانستان اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوا‘ تاہم پاکستانی عوام کو دہشت گردی سے مفحوظ کرنے کیلئے پاکستان نے طورخم پر گیٹ کی تنصیب کے ساتھ ہی ان تمام راستوں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کر لیا جو سمگلروں کے زیراستعمال تھے یا جہاں سے دہشت گردوں کی پاکستان میں آمد کی توقع کی جا سکتی تھی۔ ’’بارڈر مینجمنٹ‘‘ کے اس طریق کار کی ابتدا چند ماہ قبل جون میں طورخم پر گیٹ کی تعمیر کے ذریعے کی گئی جسے روکنے کیلئے افغان فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کرکے پاک فوج کے میجر جواد چنگیزی کو شہید کر دیا حالانکہ گیٹ کی تعمیر زیرو پوائنٹ کے کافی اندر پاکستانی علاقے میں کی جا رہی تھی۔ پاکستان نے افغانستان کے اس جارحانہ قدم کے باوجود گیٹ کی تعمیر کا کام جاری رکھا اور افغان حکام کو باور کرانے کی کوشش جاری رکھی کہ پاکستان اور افغانستان میں تعلقات کی بہتری اور دونوں ملکوں میں پائیدار امن کیلئے ’’بارڈر مینجمنٹ‘‘ نہایت ضروری ہے۔
اب بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان میں عملی طورپر بھارت کے مفادات اور اس حوالے سے بھارت کے فیصلوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں اطراف ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے۔ کیونکہ پاکستان نے جب بھی تعلقات کی بہتری کیلئے ایبک قدم آگے بڑھ کر کابل کو قیام امن کیلئے ٹھوس تجاویز دیں تو مذاکرات کی میزبان تجاویز کو باہم مشاورت اور بحث مباحثے کے بعد حتمی شکل دیکر تسلیم کر لیا گیا‘ لیکن چند روز بعد کابل حکام نے اسے رد کر دیا‘ لیکن اب پاک چین اقتصادی راہداری کے ’’فنکشنل‘‘ ہونے کے بعد امریکی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ مذکورہ تجارتی شاہراہ پر تجارتی قافلے بلاخوف و خطر اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ فی الحال اس شاہراہ سے تجارت کا آغاز چین نے شرع کیا ‘ لیکن امکان ہے کہ جلد ہی تاجکستان کے راستے روس اور دیگر وسط ایشیائی ریاستیں بھی اس راہداری کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ سے مستفید ہونگی۔ آپریشن ضرب عضب اور پاک افغان سرحد پر ’’بارڈدر مینجمنٹ‘‘ کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے قبل بھارت کو براستہ افغانستان مکمل آزادی تھی کہ وہ دہشت گردی کیلئے اہداف کا تعین کرے اور خودکش بمبار بھیج کر تباہی مچائے‘ لیکن اب بھارت کیلئے یہ سب ممکن نہیں رہا تو اس نے لائن آف کنٹرول کے علاوہ ورکنگ بارڈر پر بھی بلااشتعال فائرنگ اور بعض مقامات پر توپ خانے کا استعمال شروع کر دیا ہے۔تاہم اب پاکستان کے حفاظتی اقدامات کی بدولت افغانستان کی طرف آزادانہ آمدورفت اور دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے راستے مسدود ہونے کے بعد اس نے جارحانہ انداز میں لائن آف کنٹرول پر روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پاک فوج کو لائن آف کنٹرول پر الجھا کر مغرب سے اپنے لئے کوئی راہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہو۔ پاکستان کی سمندری حدود میں بھارتی ایٹمی آبدوز کی آمد بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتی ہے جسے پاک بحریہ نے ناکام بنا دیا ہے‘ لیکن بات کہی آجاتی ہے کہ کابل جب تک خطے میں قیام امن کیلئے بھارت کے مفادات کو مدنظر رکھنے کی بجائے افغانستان کے مفاد کو اولیت نہیں دیتا‘ خطہ بدامنی کی آگ میں جلتا رہے گا۔

مزیدخبریں