گزشتہ سے پیوستہ
جب تلک دونوں لڑکے بڑے شریف صاحب کے مشوروں پر سعادت مندی سے چلتے رہے اسٹیبلشمنٹ بھی بامروت رہی۔ جیسے ہی ان لڑکوں نے اپنا دماغ لڑانے کی کوشش کی تب سے ستارے گردش میں آ گئے۔ جس طرح ابا جی نے دو بیٹوں کو لیڈر بنایا اسی طرح دونوں بیٹوں نے اپنے بیٹے بیٹی کو جانشین بنانے کی کوشش کی۔ مگر جب ابا جی نے تجربہ کیا اس وقت زمانہ دوسرا تھا۔ اب نہ ابا جی ہیں نہ وہ زمانہ، چنانچہ پورا خاندان بنا ہوا ہے نشانہ۔
شنید میں یہ بھی آ رہا ہے کہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شریف خاندان دو قدم آگے جانے کی سوچ رہا ہے۔ بلکہ اس پر کام بھی ہو رہا ہے۔ اپنے خلاف چلنے والے کیسز کی نوعیت اور موڈز کو دیکھتے ہوئے کہ اس میں خلاصی بہت مشکل ہے فیصلہ کر بیٹھے ہیں اور ان کی سیاسی تربیت بھی شروع کر دی ہے۔ مریم نواز کے داماد راحیل منیر جو کہ یو اے ای میں بڑے اعلیٰ مشیر کے عہدے پر خدمات سرانجام دے رہا ہے اس کو صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ دوسرے سلیمان شہباز جو شہباز شریف کے بیٹے ہیں اْن کو بھی سیاست کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ دونوں خاندان بشمول اپنی اولادوں، حسین نواز، حسن نواز، مریم نواز، حمزہ شہباز اور داماد کیپٹن صفدر سیاست کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لیے ان دونوں میں ھما کا پرندہ کس پر مہربان ہوتا ہے۔ سلیمان شہباز بنیادی طور پر شہباز شریف کی کل بزنس ایمپائر کی دیکھ بھال کرتا ہے اور ایک ماہر بزنس مین ہے۔ اب یہ سلسلہ تیسری نسل میں منتقل ہورہا ہے۔کلثوم نواز ایک اچھا متبادل ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن وہ ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں اور برطانیہ میں زیر علاج ہیں۔ ان کی صحت کہاں تک ساتھ دیتی ہے اْس کے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ماضی میں نظر دوڑائی جائے تو کسی بھی سیاسی خانوادے نے جو خاص طور پر اعلیٰ حکومتی عہدے پر رہا ہو کبھی بھی اپنی اولاد کے لیے سیاست کا انتخاب کیا ہو؟ ہاں ان کے دنیا فانی سے کوچ کر جانے کے بعد ان کی اولادیں یا قریبی عزیزسیاست میں وارد ہوئے۔ چاہے وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہوں یا پھر لیاقت علی خان، جنرل ایوب خان ہوں یا پھر زوالفقار علی بھٹو سب نے اپنے جانشین متعین نہیں کیے تھے۔لیکن اب تو ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ سب سیاستدان اپنی اولادوں کو سیاست میں لا رہے ہیں اور ان کی تربیت بھی کررہے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت اب نام کی رہ گئی ہے۔ جمہوریت کے نام پر بادشاہت مسلط ہو چکی ہے۔ ورنہ راحیل منیر کس حیثیت سے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے لیے امیدوار ہیں۔ موروثیت سیاست میں غالب آتی جا رہی ہے۔ جو کہ بہت نقصان دہ ہے۔ یہ نا اہل لوگ پیسے کے بل بوتے پر ملک پر مسلط ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے۔